کون بنے گا وزیر اعظم؟
اس سوال کہ پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم کون ہوگا؟کے ساتھ 25جولائی کے بعد ایک اور سوال بھی کھڑا ہوگا کہ آئندہ وزیر اعظم کیسے بنا؟الیکشن کے بعد اس دوسرے سوال کے گرد پاکستانی سیاست گھومے گی
نیویارک (رپورٹ: محسن ظہیر)
اگرچہ وزارت عظمیٰ کے لئے ان الیکشن میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ معلق قومی اسمبلی کا وجود بنتے دیکھ رہے ہیں
عمران خان کا الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ساتھ انہوں نے آصف زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کو خارج ا ز امکان قرار دے دیا ہے
اگر جیپ والے بڑی تعداد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور الیکشن نتائج کی صورت میں معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو حکومت سازی میں جیپ کے نشان والے کامیاب ارکان کا کلیدی کردار ہوگا
الیکشن سے قبل میاں نواز شریف کا پاکستان واپس آنے اور اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ جیل جانے کے اقدام کے بعد مسلسل مشکلات کا شکار پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا یا نہیں ؟
موجودہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے بعد جس جماعت کو درون خانہ بڑے سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے ، وہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے ہیں ، 25جولائی کو دیکھنا ہوگا کہ اہالیان کراچی کس کا پلڑہ بھاری کریں گے !
الیکشن سے قبل جہاں ایک طرف سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف جیل میں ہیں تو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف خود ساختی جلا وطنی کو برقرار رکھتے ہوئے دوبئی میں مقیم ہیں لہٰذا وہ بھی الیکشن سے باہر ہی ہونگے
الیکشن جہاں وزیر اعظم کا فیصلہ کریں گے وہاں چاروںصوبوں میں صوبائی حکومتوں کا فیصلہ ہوگا۔آئندہ وزیر اعظم جو بھی ہوگا، اس کے لئے یہ بھی اہم ہوگا کہ کس صوبے میں کس کی حکومت ہے
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی پنجاب پر نظریں ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخوا میں اپنی سیاسی حریف تحریک انصاف کو بڑا اپ سیٹ دینے کی کوشش میں ہیں
پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم کون ہوگا؟کے ساتھ 25جولائی کے بعد ایک اور سوال بھی کھڑا ہوگا کہ آئندہ وزیر اعظم کیسے بنا؟الیکشن کے بعد اس دوسرے سوال کے گرد پاکستانی سیاست گھومے گی
نیویارک (محسن ظہیر ) پاکستان میں آئندہ ہفتے 25جولائی کا الیکشن ہوں گے جن کے نتیجے میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا۔ الیکشن سے قبل پاکستان کی سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما و تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کےساتھ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس کے فیصلے کے نتیجے میں جیل میں موجود ہیں ۔ اگرچہ وزارت عظمیٰ کے لئے ان الیکشن میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ معلق قومی اسمبلی کا وجود بنتے دیکھ رہے ہیں ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر پاکستان میں دو یا دو سے زائد بڑی جماعتیں چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ملکر آئندہ حکومت بنائیں گی ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آصف زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کو خارج ا ز امکان قرار دے دیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی قریب میں چئیر مین اور ڈپٹی چئیرمین کے الیکشن میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا چئیرمین سینٹ بننے کا راستہ روکا۔
الیکشن میں جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں پر بھی سیاسی پنڈتوں کی گہری نظر ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں کو چھوڑ کر آزادانہ حیثیت سے الیکشن لڑنے والے یہ امیدواران اپنے ذاتی اثر و رسوخ کے بل بوتے پر قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔ اگر جیپ والے بڑی تعداد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور الیکشن نتائج کی صورت میں معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو حکومت سازی میں جیپ کے نشان والے کامیاب ارکان کا کلیدی کردار ہوگا۔
الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد جس ایک اہم سوال کا جواب ملے گا وہ یہ ہے کہ آیا الیکشن سے قبل میاں نواز شریف کا پاکستان واپس آنے اور اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ جیل جانے کے اقدام کے بعد مسلسل مشکلات کا شکار پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا یا نہیں ؟اور وہ اپنی جیتی ہوئی نشستیں واپس لینے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں ؟اور جو ان کو چھوڑ گئے ان کے مدمقابل کھڑے کرنے والے اپنمے امیدواروں کو کامیاب کروا پائیں گے یا نہیں ۔
پاکستان کی حالیہ پارلیمانی تاریخ کے مطابق پیپلز پارٹی نے 2013اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2018میں اپنی اپنی قومی اسمبلی کی معیاد پوری کی ہیں اور قوی امکان ہے کہ 25جولائی کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی بھی اپنی پانچ سالہ معیاد پورے کرتے ہوئے موجودہ روش کو برقرار رکھے گی ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں سال2018کے بعد آئندہ الیکشن 2023میں ہونگے ۔اُس وقت تک عمران خان ، آصف زرداری ،شہباز شریف ”اکہترے ، بہتر ے “ جائیں گے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے ان پرانے کھلاڑیوں کی یہ شاید آخری سیاسی اننگ ہو ۔
موجودہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے بعد جس جماعت کو درون خانہ بڑے سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے ، وہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے ہیں جن کا ایک طرف آپس میں اور دوسری طرف اپنی ہی جماعت سے ٹوٹ کر بننے والی پی ایس پی سے مقابلہ ہے ۔ 25جولائی کو دیکھنا ہوگا کہ اہالیان کراچی کس کا پلڑہ بھاری کریں گے !
الیکشن سے قبل جہاں ایک طرف سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف جیل میں ہیں تو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف خود ساختی جلا وطنی کو برقرار رکھتے ہوئے دوبئی میں مقیم ہیں لہٰذا وہ بھی الیکشن سے باہر ہی ہونگے ۔ دریں اثناءان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر ڈاکٹر امجدکی جانب سے انتخابی تاریخ کا انوکھا فیصلہ اس وقت سامنے آیا کہ جب انہوں نے بنی گالا میں عمران خان اور اسد عمر سے ملاقات کی اور دونوں کے حق میں اسلام آباد کی نشستوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ۔مختلف سیاسی جماعتیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے فصلی بٹیروں کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے ۔
الیکشن جہاں وزیر اعظم کا فیصلہ کریں گے وہاں چاروںصوبوں میں صوبائی حکومتوں کا فیصلہ ہوگا۔آئندہ وزیر اعظم جو بھی ہوگا، اس کے لئے یہ بھی اہم ہوگا کہ کس صوبے میں کس کی حکومت ہے ۔تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی پنجاب پر نظریں ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) اور جمعیت علماءاسلام کے مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخوا میں اپنی سیاسی حریف تحریک انصاف کو بڑا اپ سیٹ دینے کی کوشش میں ہیں جبکہ سندھ میں جی ڈی اے کو بلاول بھٹو ،آئی جے آئی پارٹ ٹو قرار دے رہے ہیں ۔
دہشت گرد بھی انتخابی عمل کے دوران سرگرم عمل ہیں ۔پشاور ، بنوں اور مستونگ میں پیش آنے والے واقعات کے پیش نظر 25جولائی تک (اور یقینا بعد میں بھی ) فول پروف سیکورٹی کی ضرورت ہے ۔
پاکستان میں الیکشن ایسے وقت پر ہو رہے ہیں کہ جب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 128روپے سے بھی بڑھ گئی ہے ۔ روپے کی قدر میں اس بے قدری کے پیش نظر پاکستان کا مستقبل میں کیا معاشی چیلنج درپیش ہونگے ؟اس کا آئندہ وزیر اعظم کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئیے ۔الیکشن کے بعد انہیں یہ ڈنڈورا نہیں پیٹنا چاہئیے کہ خراب معیشت ورثے میں ملی بلکہ الیکشن اس چیلنج کو پیش نظر رکھ کر لڑنا ہوگا کہ وہ کامیاب ہوکر اس چیلنج سے نبرد آزما ہونگے ۔
ہمارے خیال میں اس سوال کہ پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم کون ہوگا؟کے ساتھ 25جولائی کے بعد ایک اور سوال بھی کھڑا ہوگا کہ آئندہ وزیر اعظم کیسے بنا؟الیکشن کے بعد اس دوسرے سوال کے گرد پاکستانی سیاست گھومے گی ۔