امریکی الیکشن : ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگ سکتا ہے!
سیاسی پنڈتوں کے مطابق امریکی صدارتی الیکشن میں ووٹ کے صحیح یا صحیح نہ ہونے کے کیس اگر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں سامنے آگئے تو ووٹوں کی بڑی تعداد پر سوال اٹھ سکتا ہے
نیویارک (محسن ظہیر )امریکی صدارتی اور کانگریشنل الیکشن میں ایک ہفتے سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے۔ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بر سر اقتدار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن کے درمیان ہونے والے یہ صدارتی الیکشن کوئی ایک دو نہیں بلکہ متعدد وجوہات کی بنا پر غیر معمولی حالات میں ہو رہے ہیں اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ میں الیکشن ایسے وقت پر ہو رہے ہیں کہ جب ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہ امریکیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی ہے ، دو لاکھ 25ہزار امریکی کورونا وبا کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے ہیں ، ملک کی بچا س میں سے آدھی سے زائد ریاستوں میں کورونا کیسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب 26اکتوبر کے اعدادو شمار تک کے مطابق سوا چھ کروڑ سے زائد (63,279,202)امریکہ ، الیکشن سے قبل ووٹ(ارلی ووٹنگ) کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ ان میں سے 42,293,113 افراد نے بذریعہ میل جبکہ دو کروڑ افراد نے پولنگ سٹیشن پر جا کر ذاتی طور پر اپنا ووٹ ڈال دیا ہے۔
امریکہ کے سال 2016میں ہونیوالے گذشتہ صدارتی الیکشن میں کل 136,669,276ڈالے گئے جن میں سے ڈونلڈ ٹرمپ کو چھ کروڑ29لاکھ سے زائد (62,984,828)پاپولر ووٹ جبکہ ان کی ڈیموکریٹک حریف صدارتی امیدوار کو چھ کروڑ 58لاکھ سے زائد (65,853,514) پاپولرووٹ ملے تھے ۔ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں تیس لاکھ زائد ووٹ ملے تھے لیکن امریکی صدارتی الیکشن کا فیصلہ پاپولر ووٹ نہیں بلکہ الیکٹورل کالج کے ووٹ سے ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے سال2016میں صدر ٹرمپ کوالیکٹورل کالج کے 535میں سے 304جبکہ ہیلری کلنٹن کو 227ووٹ ملے ۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔سال 2016کے الیکشن میں ٹرن آو¿ٹ 55.7فیصدر ہا ۔
گذشتہ صدارتی الیکشن کا موجودہ سال2020کے صدارتی الیکشن سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ الیکشن میں ڈالے گئے کل ووٹوں کی نصف تعداد میں امریکی ووٹرز تین نومبر 2020سے پہلے ہی ”ارلی ووٹنگ “ سسٹم کے تحت اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔اس صورتحال کو پیش نظررکھتے ہوئے یونیورسٹی آف فلوریڈا میں الیکشن پراجیکٹ کے ڈائریکٹرپروفیسر مائیکل میکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ تین نومبر کے الیکشن کا ٹرن آو¿ٹ65فیصد سے زائد ہو اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سال1908کے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ ووٹنگ ٹرن آو¿ٹ ہو گا۔
امریکی ریاست ٹیکساس میں سال2016کے ٹرن آوٹ کے مقابلے میں ٹرن آو¿ٹ 70فیصد سے تجاوز کر گیا ہے ، جارجیا ریاست میں لوگوں نے ووٹ ڈالنے کے لئے قطاروں میں دس گھنٹے تک انتظار کیا ۔اسی طرح وسکانسن میں بھی ریکارڈ تعداد میں ”ارلی ووٹ “ ڈالئے جا رہے ہیں جہاں ایک ملین سے زائد لوگوں نے اپنا فیصلہ دے کر بیلٹ پیپر واپس ارسال کر دئیے ہیں ۔ اسی طرح ورجینیا، اوہائیو میں بھی ووٹرز کی طویل قطاریں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔نیوجرسی سٹیٹ میں ایک ملین سے زائد ووٹرز اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں جبکہ مئیر نیویارک بل ڈبلازیو کے مطابق 26اکتوبر تک نیویارک سٹی میں دو لاکھ ووٹرز اپنا حق رائے استعمال کر چکے ہیں ۔”ارلی ووٹنگ“ میں جواں سال اور مینارٹی کمیونٹیز کے ووٹرز کی بھی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لئے نکلی ہے ۔
برطانوی اخبار گارڈئین کی ایک رپورٹ کے مطابق دو اہم امریکی سکالرز پروفیسر مائیکل ہیرن اور پروفیسر ڈینیئل سمتھ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی وہ ریاستیں کہ جنہیں ”سوئنگ سٹیٹس “ کہا جاتا ہے ، میں بذریعہ میل ڈالے گئے ووٹوں میں ہزاروں ووٹ دستخط نہ ملنے کی وجہ سے مسترد ہو سکتے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس بات ڈیموکریٹس کی جانب سے بذریعہ میل زیادہ ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔
صدارتی الیکشن میں ایک ہفتہ سے بھی کم وقت پر ملک کی مختلف ریاستوں میں ووٹنگ کے حوالے سے قانون چیلنجوں کے سامنے آنے کے امکانات واضح ہو تے جا رہے ہیں ۔سپریم کورٹ کی جانب سے ریاست الاباما میں ”کرب سائیڈ ووٹنگ “کو روک دیا۔نارتھ کیرولائنا میں ریپبلکن پارٹی والے ، انتخابات کے 48 گھنٹوں بعد میل ان بیلٹ حاصل کرنے کی اجازت کے قواعد پر مداخلت کی درخواست کر رہے ہیں۔ٹیکساس اور نیو جرسی میں ، ریاستی عدالتوں نے نظر ثانی شدہ انتخابی قواعد کو برقرار رکھا۔ یہ ریاست اور شہر کے مقننہوں نے COVID-19 کے پھیلاو¿ کو روکنے کے لئے تشکیل دیئے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حریف ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن قانون، الیکشن کے بعد کسی بھی قانون چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے لئے اپنے اپنے وکلاءکو تیار رہنے کی ہدایات جاری کئے ہوئے ہیں ۔سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے حکام کی جانب سے جاری ایک محکمانہ میمو جو کہ لیک ہو گیا ، میں حکام کی جانب سے پولیس آفیسرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ الیکشن کے بعد چھٹیوں کی بجائے کام پر اپنی حاضری کو یقینی بنائیں تاکہ انتخابی نتائج میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی غیرمعمولی یا امن و امان کی صورتحال سے نمٹا جا سکے ۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق امریکی صدارتی الیکشن میں ووٹ کے صحیح یا صحیح نہ ہونے کے کیس اگر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں سامنے آگئے تو ووٹوں کی بڑی تعداد پر سوال اٹھ سکتا ہے اور ووٹ کو عز ت دو کا نعرہ لگ سکتا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالعموم الیکشن والی رات دیر تک یا علی الصبح صورتحال واضح ہو جاتی ہے کہ فاتح کون ہے ؟تاہم اس بار انتخابی نتائج کے اعلان میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں اور تین اور چارنومبر کی درمیان رات یا چارنومبر کی صبح تک انتخابی نتائج کی صورتحال کے واضح نہ ہونے کا امکان موجود ہے ۔