تین نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گئے ہیں اور ابھی تک تمام قومی اور ریاستی انتخابی جائزے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جو بائیڈن کی فتح کی جانب اشارہ کر ہے ہیں۔لیکن— ذرا ٹہرئیے! اگر سارے انتخابی جائزے یا رائے شماری میں جو بائیڈن سبقت لئے ہوئے ہیں تو پھر ڈیموکریٹ پارٹی والوں کی نیندیں کیوں حرام ہو رکھی ہیں ؟ اور آخر اُن کی شدید بوکھلاہٹ کی وجہ کیا ہے؟ تو آئیے ان وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
۱: اگر آپ کو یاد ہو کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میںڈیموکریٹک پارٹی کی مضبوط صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے بھی تمام قومی اور ریاستی انتخابی رائے شماریوں میں صدر ٹرمپ پر برتری حاصل کر رکھی تھی اوربڑے بڑے نامور سیاسی پنڈت اور طاقت ور میڈیا نے انہیں الیکشن سے پہلے ہی فاتح قرار دے دیا تھا اور صدر ٹرمپ کے بارے میں ان لوگوں کی رائے یہ تھی کہ وہ بس ” تکے” میں ہی یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ کہاں ایک جانب شاندار سیاسی کیریئر رکھنے والی سدا بہار نامور سیاستدان ہیلری کلنٹن اور دوسری طرف خواتین کی ریسلنگ سے محفوظ ہونے والا ایک رنگین مزاج کاروباری شخص ۔۔۔بھلا ہیلری کلنٹن کے سامنے کیسے ٹھہر پائے گا۔۔مگر دوسری جانب ڈیموکریٹس کے تمام بڑے دماغوں سمیت واشنگٹن کی اشرافیہ اور انتہائی طاقتور میڈیا اس بات کا ادراک نہ کرسکا کہ وہ خاموش امریکی ووٹرز ” جن کا تعلق ان ریاستوں سے ہے جنہیں “سونگز سٹیٹس “کہا جاتا ھے اور ( تمام صدارتی انتخابات میں یہی خاموش ووٹرز فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس پارٹی کے امیدوار کو وائٹ ہاو¿س بھیجیں گے) وہ اس مرتبہ کیا سوچ رہے ہیں ؟؟
یہ وہ خاموش ووٹرز تھے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ان تمام روایتی سیاستدانوں سے تنگ آچکے تھے جو اپنے اپنے ارب پتی ” ڈونرز” سے کروڑوں ڈالرز کے انتخابی چندے وصول کرکے باقی تمام عرصہ صدارت ان ہی کے مفادات کے لئے کام کرتے گزار دیتے تھے۔صدر ٹرمپ اپنی تمام تر حماقتوں بدزبانی، اور رنگین مزاجی کے باوجود امریکی عوام کے اندر پلنے والے اس لاوے کو بھانپ چکے تھے اور یہی وجہ ھے کہ وہ ان ووٹرز کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کی مخالف امیدوار نہ صرف اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں بلکہ وہ اگر اقتدار میں آگئیں تو ملک میں ارب پتیوں کا مکمل راج ھوگا اور آپ لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹس کے ذہنوں میں آج بھی 2016 کے وہ خدشات اور وسوسے پل رہے ہیں۔ اگرچہ جو بائیڈن ہیلر کلنٹن کے مقابلے میں زیادہ مضبوط سیاسی پس منظر رکھتے ہیں اور عوامی سیاستدان گنے جاتے ہیں مگر ان سب باتوں کے باوجود ڈیموکریٹس اس موقع پر اپنے صدر کی فتح کا ایک فیصد بھی اعتماد سے دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور اپنے کارکنوں کو مسلسل اس بات کی تاکید کر رہے ہیں کہ وہ سروے پر یقین کرکے آرام سے نہ بیٹھ جائیں۔
۲۔سال 2016 میں جب کہ الیکشن میں صرف گیارہ دن باقی رہ گئے تھے ایف بی آئے نے ڈیموکریٹس کی صفوں میں اس وقت کھلبلی مچادی جب امریکی عوام کو بتایا گیا کہ ان کی صدارتی امیدوار اپنے پرائیویٹ ای میل سرور سے محکمہ خارجہ کی انتہائی حساس معلومات کا تبادلہ کرتی رہیں ہیں جس سے ملکی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں یا ہوچکے ہیں۔
اور آج 2020 میں جب کہ الیکشن میں صرف چنددن ہی باقی تھے کہ سابق نائب صدر اور اب صدارتی امیدوارجو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے بزنس پارٹنر کے خوفناک انکشافات اوران ای میلز کا ذکر کیا جارہا ہے جس میں یہ دعویٰ سامنے آرہا ہے کہ ہنٹر بائیڈن نے یوکرائن کے ساتھ ایک کاروباری معاہدے میں فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے والد کے بطور نائب صدر اختیارات کا استعمال کیا۔
دو دن پہلے آخری صدارتی مباحثے میں صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن پر ان خوفناک انکشافات کے حوالے سے تابڑ توڑ حملے کرکے انہیں دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے( اگرچہ بائیڈن نے ایسے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی اور انہیں مخالفین کی جانب سے اوچھے ہتھکنڈے کا استعمال کہا) اس کے باوجود تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق اگر ری پبلکن پارٹی نے یہ ثبوت امریکی عوام کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ھوجاتے ہیں تو جو بائڈن کی پوزیشن انتہائی حساس اور کمزورہوسکتی ہے۔
دوسری جانب اگر ری پبلکن ایسا نہیں کرپائے تو اس کا لازمی نقصان صدر ٹرمپ کو پہنچ سکتا ہے۔
۳۔ ڈیموکریٹس کی ایک اور پریشانی اس وقت زیادہ بڑھ گئی جب صدر ٹرمپ نے ایک صحافی کو بتایا کہ لوگوں کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ میں نے 2016 کا پورا الیکشن صرف آخری ایک ہفتہ میں سونگز سٹیٹس میں 24 انتخابی جلسوں سے خطاب کرکے جیتا تھا اور اب بھی وہ اسی مشن پر پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل عوامی جلسوں سے پرجوش خطاب کرکے جو بائیڈن کی برتری کو کم کرتے جارھے ہیں۔
۴۔ دوسری طرف ایک دلچسپ صورتحال ری پبلکن اور ڈیموکریٹس پارٹی کے کارکنوں کا انتخابی مہم کے دوران کرونا وائرس کے خونی پنجوں سے اپنے اپنے انداز سے نبرد آزما ہونے کا ہے۔ری پبلکن پارٹی کے کارکن اپنے صدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کرونا وائرس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گھر گھر جاکر اپنے صدر کی انتخابی مہم جوش وخروش سے جاری رکھتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اپنے صدر کے حق میں ووٹ ڈالنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں بلکہ نئے ووٹرز کی رجسٹریشن بھی لاکھوں کی تعداد میں کر چکے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس ڈیموکریٹس کے کارکن اس ڈر سے لوگوں کے ساتھ زیادہ میل ملاپ نہیں کر پارہے کہ کہیں وہ کرونا وائرس کا شکار نہ ہوجائیں۔
قارئین! اب کچھ ذکر کرتے ہیں تین نومبر کو پرامن انتخابات کے انعقاد کا کہ آج سے تقریباً چار سال پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب دنیا کے سب سے طاقتور جمہوری ملک میں تیسری دنیا کے ممالک کی طرح انتخابی دھاندلیوں ووٹوں کی چوری،بیلٹ بکس کو ادھر ادھر کرنے، دنگا فساد قتل وغارت امیدواروں کے اغو ا،جان سے مارنے کی دھمکیاں دو سے بھی زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالنے اور “کچھ” ملکوں کی طرح رات بارہ بجے کے بعد فرشتوں کے ووٹ ڈالنے جیسے واقعات اور انتخابی نتائج تبدیل کرنے جیسی باتیں ایک دن اس ملک میں بھی دیکھنے سننے کو ملیں گی۔
جی ہاں آج کے امریکہ میں یہ سب کچھ عملاً ہو رہا ہے۔۔۔ اور آج دنیا کی یہ عظیم جمہوریت ایک ایسی خوفناک صورتحال سے دوچار ہے جس میں بدترین نسلی امتیاز، قدامت پسندوں اور لبرلز کی انتہائی حد تک آپس میں بڑھتی ھوئی نفرت کی دیواریں،امن و آمان کی بگڑتی ھوئی صورتحال سمیت کساد بازاری کے منڈلاتے سائے کرونا وائرس سے دولاکھ پچیس ہزار سے زائد اموات اور وائرس کے ایک دن میں 80 ہزار مثبت کیس جیسی خوفناک خبروں نے امریکی عوام کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
صدر ٹرمپ پہلے ہی انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا برملا اظہار کر چکے ہیں اور اپنے کارکنوں کو ہر طرح کی صورتحال میں تیار رہنے کا حکم دے چکے ہیں۔۔ اگر تین نومبر کے ہونے والے انتخاب میں کوئی واضح فاتح سامنے نہیں آتا تو خدشہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے کارکنوں کا آپس میں شدید خونی تصادم ہوسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تمام خفیہ ایجنسیوں کے پچھلے ایک سے دو ماہ میں لگ بھگ ساٹھ سے زیادہ اجلاس ہوچکے ہیں جب کہ وائٹ ھاو¿س کو تقریبآ ” نو گو ایریاز” میں تبدیل کیا جا رھا ہے۔
دوسری جانب وہ لوگ اور ادارے جنھوں نے ملکی سلامتی کی حفاظت کا بیڑا اٹھا رکھا ھے کا ایک واضح پیغام امریکی عوام کے سامنے آچکا ہے جس میں آئین کی بالادستی کو مقدم جانتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین کسی ایک ” شخص” کے لئے نہیں بنایا گیا ہے اور اگر جو بائیڈن کی فتح کے باوجود صدر ٹرمپ اقتدار کی پرامن منتقلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تو پھر آئین اپنا راستہ خود نکالے گا جس کا مطلب ضرور پڑہنے پر صدر ٹرمپ کو وائٹ ھاو¿س سے اٹھاکر باہر پھینکنا بھی ہوسکتا ہے۔ ۔۔۔(باقی آئندہ ۔۔۔جاری ہے)
US Elections 2020, Jamal Khan