امریکی ارکان کانگریس کمیٹی میں کشمیرپر سماعت ، صورتحال پر تشویش
کانگریس کی ذیلی کمیٹی میں بیشتر قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات پر سوالات اٹھائے،کشمیر میں بھارتی اقدامات کے اثرات کے حوالے سے امریکا بدستور خدشات کا شکار ہے،ایلس ویلز
کشمیر میں بھارت کے اقدامات، نریندر مودی کی بی جے پی کے اسلام مخالف اقدامات کا ہی حصہ ہیں۔، بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حراستی کیمپس قائم کیے جانے کی بھی رپورٹس ہیں، الہان عمر
کیامقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے؟ بریڈ شرمین، امریکا اس حوالے سے کوئی پوزیشن نہیں لے رہا، مقبوضہ کشمیر میں سفارت کاروں کو لے جانے کیلئے بھارت سے بات کی جارہی ہے، ایلس ویلز کا جواب
واشنگٹن (اردو نیوز ) امریکا نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے وادی میں حالات معمول پر لانے کا مطالبہ کردیا۔کانگریس مین بریڈ شرمین کی سربراہی میں امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں بیشتر قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات پر سوالات اٹھائے۔جنوبی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز نے کہا کہ بھارت کے وادی کشمیر میں اقدامات کے اثرات کے حوالے سے امریکا بدستور خدشات کا شکار ہے۔انہوں نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ ‘امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور انٹرنیٹ و موبائل فون سمیت تمام سروسز بحال کرے۔ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکا کو کشمیر کے مرکزی سیاسی رہنماو¿ں سمیت شہریوں کی حراست اور مقامی و غیر ملکی میڈیا کی کوریج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر بھی تشویش ہے۔کمیٹی کی نمائندہ و معروف خاتون ساز الہان عمر نے کہا کہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات، نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اسلام مخالف اقدامات کا ہی حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حراستی کیمپس قائم کیے جانے کی بھی رپورٹس ہیں، آسام میں تقریباً 20 لاکھ افراد رجسٹریشن کے متنازع عمل میں اپنی بھارتی شہریت ثابت نہیں کر پائے ہیں جن سے متعلق مودی کی حکومت کہہ رہی ہے کہ ‘غیر قانونی’ مہاجر ملک میں نہیں رہ سکتے۔
اس موقع پر ایلس ویلز نے کہا کہ ‘ہم نے اپنی تشویش ظاہر کی ہے لیکن آسام میں شہریت کی رجسٹریشن کا عمل عدالت کے حکم پر ہوا جس کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یکطرفہ اقدام کے ساتھ ہی پوری سیاسی قیادت کو غیر قانونی طور پر گرفتار یا نظر بند کر لیا گیا تھا جس میں سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ حریت رہنما بھی شامل ہیں۔سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کے علاوہ حریت کانفرنس کے ہزاروں کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن میں سیکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر اراکین کانگریس نے امریکی وزیر خارجہ کی نائب ایلس ویلز سے سخت سوالات کیے۔ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ کشمیرکی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے،5 اگست سے 80 لاکھ کشمیری روز مرہ کی سہولیات سے محروم ہیں،انٹرنیٹ اورٹیلی فون سروس کھولنے کیلئے بھارت پر دباو¿ ڈالتے رہیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بھارت سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمین نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔بریڈ شرمین نے سوال کیا کہ کیامقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے؟ جس پر ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکا اس حوالے سے کوئی پوزیشن نہیں لے رہا ،ان کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سفارت کاروں کو لے جانے کیلئے بھارتی حکومت سے بات کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے لاک ڈاو¿ن جاری ہے جس کے باعث وادی میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، وادی میں بچوں کے دودھ، ادویات اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے۔مقبوضہ وادی میں ٹیلیفون سروس اور انٹرنیٹ بند ہے جبکہ گزشتہ روز عارضی طور پر موبائل فون سروس کچھ علاقوں میں بحال کی گئی تھی۔
اجلاس کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی نیہا مسیح نے ٹویٹ کیا کہ امریکی کانگریس میں ایوان نمائندگان کی جنوبی ایشیا پر ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیرمین بریڈ شرمن نے امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ایلس ویلز سے سوال پوچھا کہ کیا امریکہ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے سفارتکار بھیجنے کی کوشش کی ہے؟جس کے جواب میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکہ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اپنا وفد بھیجنے کی کوشش کی تھی لیکن انڈیا نے اس کی اجازت نہیں دی۔
اس خصوصی سماعت کے دوران، امریکہ میں قائم ’کشمیر ہیومن رائٹس فاو¿نڈیشن‘ کے اراکین نے کانگریس سے رابطہ کار کے طور پر کام کیا۔ فاو¿نڈیشن کے سربراہ اور کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ رہنما ڈاکٹر آصف محمود نے بتایا کہ انھوں نے کشمیر کی صورتحال پر اپ ڈیٹ حاصل کر لیا ہے۔
U.S. congressional panel discusses situation in Kashmir