اوورسیز پاکستانیزکالم و مضامین

کاروان فکر و فن کے زیر اہتمام اردو ٹائمز امریکہ کے ایڈیٹر خلیل الرحمان مرحوم کی یاد میں تعزیتی اجلاس

کاروان فکر و فن کے وکیل انصاری اور ساتھیوں کے زیر اہتمام تعزیتی اجلاس کی صدارت سینئر صحافی عظیم ایم میاں نے کی جبکہ تقریب میں خلیل الرحمان مرحوم کی بیوہ انجم خلیل نے خصوصی شرکت کی

تقریب میں معروف ادبی شخصیات مامون ایمن، ڈاکٹر صبیحا صبا ، نیلو فر عباسی کی مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت ،اعجاز بھٹی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے، کمیونٹی کی اہم شخصیات اور ارکان شریک
شمالی امریکہ میں خلیل الرحمان مرحوم کی اردو صحافت کے لئے تین سے زائد دہائیوں کی خدمات تھیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے، تعزیتی اجلا س کے شرکاءکا خلیل الرحمان کی خدمات کو خراج تحسین
خلیل سے جدا نہیں ہوئے، وہ مجھ میں سما گئے ہیں۔ میں نے بہترین دوست، بہترین ہمدم کھو دیا ہے ،وہ بہت شریف ، قناعت پسند اور فقیر منش انسان تھے، انجم خلیل الرحمان کا خطاب
تقریب سے عظیم ایم میاں ،مامون ایمن ،ڈاکٹر صبیحا صبا ، وکیل انصاری ، نیلو فر عباسی، جمیل عثمان ، فائق صدیقی ، ناہید بھٹی ، شمس الزمان ، ثقلین ملک ، نصیر رانا، ظفر اقبال نیویارکرکے خطابات

نیویارک ( رپورٹ: جمیل عثمان) کاروان فکر و فن شمالی امریکہ کے زیر اہتمام اردو ٹائمز امریکہ کے ایڈیٹر و پبلشر خلیل الرحمان مرحوم کی یاد میں تعزیتی اجلاس منعقد ہواجس میں مرحوم کی صحافت، اردو زبان اور کمیونتی کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔بلخ ریسٹورنٹ لانگ آئی لینڈ میں کاروان فکر و فن کے وکیل انصاری اور ساتھیوں کے زیر اہتمام تعزیتی اجلاس کی صدارت سینئر صحافی عظیم ایم میاں نے کی جبکہ تقریب میں خلیل الرحمان مرحوم کی بیوہ انجم خلیل نے خصوصی شرکت کی ۔ تقریب میں معروف ادبی شخصیات مامون ایمن، ڈاکٹر صبیحا صبا ، نیلو فر عباسی نے مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی ۔ اعجاز بھٹی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے ۔ تقریب کا آغاز طارق مسعود کی جانب سے تلاوت قرآن مجید اور بار گاہ رسالت ﷺ میں ہدئیہ عقیدت پیش کرکے کیا گیا ۔
وکیل انصاری کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خلیل الرحمان سے ان لوگوں کا چالیس سال سے واسطہ رہا۔ صحافت اور اردو کے لئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
ناہید بھٹی نے کہا کہ آج ہم سب خلیل الرحمان کی یاد میں جمع ہوئے ہیں جنہوں نے چالیس سال پہلے امریکہ میں اردو صحافت کی بنیاد رکھی ۔ انجم خلیل نے ان کا بہت ساتھ دیا اور آج بھی وہ اخبار شائع کر رہی ہیں
معروف مزاح نگار نصیر رانا نے خلیل الرحمان کا کہنا تھا کہ خلیل الرحمان مرحوم میرے ساتھی رہے ہیں ،مجھ سے بہت محبت سے پیش آتے تھے ۔ جب بھی ملے محبت سے ملے ،سیدھی بات کرتے تھے ، صحافت کی دنیا میں دو نام ہیں، ایک جنگ کے میر خلیل الرحمان اور دوسرا میرا بھائی خلیل الرحمان ۔
معرو ف صحافی اور اینکرپرسن فائق صدیقی کا کہنا تھا کہ خلیل الرحمان مرحوم کو زبان سے محبت تھی، عمر بھر اس بات پر زور دیتے رہے کہ آپ کو اپنی مادری زبان سیکھنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہمیں خلیل سے محبت ہے تو ضروری ہے کہ اس چراغ کو بجھنے نہ دیں۔
پاک امریکن سوسائٹی کے شمس الزمان کا کہن تھا کہ خلیل الرحمان نے اردو ٹائمز کی مسلسل اشاعت کرکے صحافت کے لئے خدمات انجام دیں ، ہم میں سے جو بھی کسی بھی شعبے میں خدمات انجام دے، اس کی قدر کرنی چاہئیے ۔
ثقلین ملک نے کہا کہ خلیل الرحمان شرارتی آنکھیں رکھتے تھے ۔وہ سچ کہنے کی ہمت رکھتے تھے ۔میں انہیں کمپیوٹر سکھاتا تھا مگر وہ مجھے زندگی کے حقائق سکھاتے تھے۔معروف گلوکار ظفر اقبال نیو یارکر نے کہا کہ خلیل کے ساتھ ایسی دوستی تھی کہ ہم اکثر ساتھ وقت گزارتے تھے ۔ان سے بڑی بے تکلفی تھی،ان سے ہر موضوع پر ہمیشہ دلچسپ بات چیت ہو تی تھی ۔
شاعر و ادیب جمیل عثمان نے خلیل الرحمان پر ایک مختصر مضمون پڑھا ۔ انہوں نے کہا کہ خلیل امریکہ میں اردو صحافت کے سرخیل تھے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں اپنے کام سے لگاو¿ تھا ۔ وہ صبح سویرے نیو یارک سے نیو جرسی اخبار ڈیلیور کرنے پہنچ جاتے تھے ۔ انہوں نے میری کتاب کی رونمائی پر بینر بنوایا اور خود لے کر نیو جرسی آئے اور اپنے ہاتھ سے کانفرنس حال میں بینر لگایا ۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا –
محترمہ نیلوفر عباسی نے کہا کہ جب ہم میں نیو یارک آئے تو اہل نیو یارک نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ پہلی دعوت وکیل انصاری کے گھر ہوئی، وہیں خلیل سے ملاقات ہوئی ۔ خلیل کو بات منوانے کی عادت تھی لیکن وہ وکیل کی بات نہیں ٹالتے تھے۔ عالمی اردو کانفرنس کوئی کھیل نہیں تھا ، اگر انجم کا ساتھ نہ ہوتا تو وہ ممکن نہیں ہو سکتا تھا ۔ خلیل الرحمان ہر موضوع پر بات کرتے تھے ۔جس طرح میر خلیل الرحمان نے قمر علی عباسی کو جنگ میں لکھنے کے لئے چنا تھا، اسی طرح خلیل الرحمان نے انہیں اردو ٹائمز کے لئے چنا تھا ۔ کانفرنسوں میں خلیل ایسے کام کرتے تھے جیسے سپاہی محاذ پر ،سنجیدہ نظر آنے والے خلیل میں حس مزاح بہت تھی –
ڈاکٹر صبیحہ صبا نے کہا کہ میں جب وہ ایک کانفرنس کے لئے آئی تھیں تو ادبی حلقوں سے پہلا تعارف مامون بھائی کے ذریعے ہوا ۔ انہی کے ذریعے خلیل اور انجم سے تعارف ہوا ۔ جب یہ دونوں میاں بیوی کسی محفل میں ہوتے تھے تو اس محفل کا اعتبار قائم ہو جاتا تھا ۔ خلیل ہمیشہ جلدی میں ہوتے تھے ۔جیسے انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو نمایاں نہیں کرتے تھے ۔ہمیں چاہئے کہ ان کی یادوں کو تازہ رکھیں ۔ ہر سال ان کی یاد میں ایک بڑا فنکشن کیا کریں۔ ان کے نام سے ایوارڈ قائم کریں ۔ صہبا لکھنوی کے ساتھ افکار ختم ہو گیا لیکن خلیل الرحمان کے ساتھ اردو ٹائمز ختم نہیں ہونا چاہئے۔
میزبان اعلیٰ محترمہ انجم خلیل نے کہا کہ سب سے پہلے میں خلیل مرحوم کی یادوں کو تازہ کرنے پر کاروان فکر و فن، وکیل انصاری اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔بیگم انجم خلیل نے آنسوو¿ں کے درمیان کہا کہ وہ مجھ سے جدا نہیں ہوئے۔ وہ مجھ میں سما گئے ہیں ۔میں جذبات کو قابو کرنے کے لئے لڑ رہی ہوں۔ میں نے بہترین دوست، بہترین ہمدم کھو دیا ہے ،وہ بہت شریف ، قناعت پسند اور فقیر منش انسان تھے۔مرتے دم تک ان کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی ۔
مامون ایمن نے کہا کہ خلیل کی بہترین صفت یہ تھی کہ اس کے اخبار میں کسی کے خلاف کوئی بات نہیں لکھی گئی – خلیل الرحمان نے اردو ٹائمز شروع کیا تو اس میں سب سے پہلا انٹرویو مامون ایمن کا تھا ۔ مامون ایمن صاحب نے خلیل کی یاد میں ایک نظم پیش کی جس کے چند اشعار یہ ہیں:
یادوں سے مہکتا ہوا گلشن ہے آج
احباب کی تقریب کا درپن ہے آج
امریکہ میں اردو کا وہ سودائی تھا
پردیس میں اک دیس کا ہرجائی تھا
مامون ایمن نے خلیل الرحمان کی شان میں کئی رباعیاں سنائیں، جن میں سے ایک درج ذیل ہے:
اطوار کو اخبار بناتا تھا وہ
اخبار کو اذکار بناتا تھا وہ
اذکار کو افکار بناتا تھا وہ
افکار کو اطوار بناتا تھا وہ
صدر مجلس عظیم ایم میاں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اتنے اچھے مقرروں کے بعد مجھ جیسے فقیر کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا ۔ بس اتنا کہوں گا کہ خلیل الرحمان برملا بات کرتے تھے۔ خلیل کا مزاج تھا کہ جس چیز پر نظر ٹھہر جائے، انجم سمیت، وہ اسے حاصل کر لیتے تھے ۔ نہایت سادہ کپڑے پہنتے تھے – کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ چیف ایڈیٹر اور پبلشر بھی ہیں۔ کہیں اپنے آپ کو نمایاں نہیں کیا ۔ صحافت میں اردو ٹائمز کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے ۔ خوبیاں اور خامیاں تو ہر شخص میں ہوتی ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ اس نے کمیونٹی کو کیا دیا ۔آخر میں کاروان فکر و فن کی جانب سے اعجاز بھٹی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button