پاکستان

بے روز گار امریکی شہریوں کے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ بند

چھ ستمبر جو کہ امریکہ میں لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ، کے روز سے ملک بھر میں 70ہزار افراد ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ سے محروم ہوگئے اور اب انہیں کام پر جانا ہوگا

نیویارک (محسن ظہیر سے ) کورونا وبا کی وجہ سے امریکہ کی وفاقی حکومت کی جانب سے بے روز گار ہونے والے امریکی شہریوں کو دئیے جانے والے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ (unemployment benefits)بند ہو گئے ہیں ۔اس بندش کی وجہ سے چھ ستمبر جو کہ امریکہ میں لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ، کے روز سے ملک بھر میں 70ہزار افراد ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ سے محروم ہو جائیں گے اور اب انہیں روزگار کی تلاش میں باہر نکلنا ہوگا یا ایسے ورکرز جو کہ وبا کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہے تھے ، کو واپس کام پر جانا ہوگا۔
سنچری فاو¿نڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 70لاکھ سے زائد ایسے امریکی کہ جو ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ سے محروم ہو رہے ہیں ، کے علاوہ تیس لاکھ امریکی ایسے بھی ہیں کہ جو ریاست کی سطح پر بے روزگاری کی صورت میں ملنے والی امداد سے بھی اب محروم ہو رہے ہیں ۔واضح رہے کہ اٹھارہ ماہ قبل امریکی کانگریس کی جانب سے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ کی منظوری دی گئی جس میں توسیع بھی کی گئی تاہم اب بعض لوگوں کی توقعات کے برعکس بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ان بینیفٹس میں مزید توسیع سے انکار کر دیا گیا ہے ۔


امریکہ میں ایک سال سے زائد عرصے سے گھر بیٹھے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ لینے والے بہت سے ایسے افراد بھی ہیں کہ جنہیں گھر بیٹھے پیسے ملنے کی وجہ سے کام نہ کرنے کی عادت نہیں رہی اور ان کے لئے کاموں پر واپس جانا مشکل نظر آرہا ہے دوسری جانب بڑی تعداد میں کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں ورکرز کے گھر بیٹھنے کی وجہ سے انہیں لیبر کی دستیابی اور اپنے کاروباروں کو چلانا ایک بہت بڑا مسلہ بن گیا ہے۔ ایسے کاروباری طبقے کی جانب سے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ کی بندش کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے ۔
امریکہ بھر میں موجود پاکستانی امریکن کمیونٹی کے کاروبار ی مراکز جن میں ریسٹورنٹ ، پارٹی ہال، آٹو شاپس،گروسری سٹورز ، حلا میٹ سٹورز ، کاروباری دفاتر وغیرہ جیسے اہم کاروبار شامل ہیں ، کا بھی کہنا ہے کہ انہیں ورکرز ملنا مشکل بنا ہو اہے ۔ لوگ گھروں پر بیٹھے ہیں ، بینیفٹس کی وجہ سے کام یا جاب پر واپس نہیں آرہے یا دستیاب نہیں ہیں ، جن کی وجہ سے ان کے کاروبار شدید متاثر ہو رہے ہیں ۔
نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سمیت دیگر کمیونٹیز کے ہزاروں ٹیکسی ڈرائیوز بھی ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ ملنے کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آٹھ سے بارہ گھنٹے کام کے بعد جو کماتے تھے ، اس سے زیادہ انہیں ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ کی مد میں مل جاتا تھا ۔وفاقی حکومت کی جانب سے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ کی بندش کے بعد مذکورہ طبقے کے مزے بھی ختم ہو گئے ہیں اور انہیں بھی روزگار کے لئے باہر نکلنا ہوگا


تاہم ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ ایک ایسے وقت پر بند ہوا ہے کہ جب نیویارک سمیت امریکہ بھر میں کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا تیزی سے پھیل رہی ہے ۔یہ نہ صرف ان لوگوں کو کہ جنہوں نے کورونا ویکسین نہیں لگوائی نشانہ بنا رہی ہے بلکہ جنہوں نے گذشتہ پانچ ماہ کے دوران ویکسین لگوائی بھی ہے ، کو بھی اپنا ہدف بنا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں لوگوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس کو ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئیے ۔ ایسے خاندان کہ جن کے گھروں میں بارہ سال کی کم عمر کے بچے بھی موجود ہیں ، کا کہنا ہے کہ بارہ سال کی کم عمر کے بچوں کو ویکسین نہیں لگوائی جا سکتی اور کام کےلئے باہر جانے اور واپس گھر آنے کی صورت میںوہ کیئرئیر کی صورت میں بچوں کو وائرس دے سکتے ہیں ، لہٰذا حکومت کو چھوٹی عمر کے بچوں والے خاندانوں کے لئے کچھ کرنا چاہئیے ۔
مذکورہ تمام تر دلائل کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے ”اَ ن اِمپلائمنٹ بینیفٹس“ میں مزید توسیع نہیں کی گئی جو کہ ورکرز کے لئے واضح پیغام ہے کہ اب انہیں کام کی تلاش میں باہر نکلنا ہوگا اور وائرس سے بچاو¿ کے لئے ہر ممکن حفاظتی اقدام بھی کرنے ہونگے ۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) کی جانب سے ایسے امریکی کہ جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بلا تاخیر ویکسین لگوائیں کیونکہ انفیکشن کی صورت میں ان کے شدید بیمار ہونے کا اموات کے زیادہ امکانات ہیں ۔

unemployment benefits

Related Articles

Back to top button