" "
پاکستان

امریکہ میکسیکو بارڈر پر فوج تعینات ، لاطنی امریکہ سے میکسیکو کے ذریعے امریکہ داخل ہونے والے تارکین وطن کو بارڈر پر ہی روکنے کا حکم

مزید فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب لاطینی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن پر مشتمل ایک بڑا قافلہ میکسیکو سے امریکہ کی سرحد کی طرف بڑھ رہا ہے

تین ہزار تارکینِ وطن پر مشتمل ایک دوسرا قافلہ اس وقت گوئٹے مالا اور میکسیکو کی سرحد پر موجود ہے اور اس کی منزل بھی امریکہ ہے۔سرحدوں پر فوج کی تعیناتی امریکہ میں ایک غیر روایتی اقدام ہے
تارکینِ وطن کو عارضی پناہ گزینوں کی طرح خیموں میں رکھا جائے گا اور ماضی کے برعکس انہیں عدالتوں سے ان کی پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک معاشرے میں گھلنے ملنے کی اجازت نہیں دی جائے گی

واشنگٹن (اردو نیوز) امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کو روکنے کے لیے میکسیکو کے ساتھ اپنی سرحد پر 5200 فوجی اہلکار تعینات کر رہی ہے۔مزید فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب لاطینی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن پر مشتمل ایک بڑا قافلہ میکسیکو سے امریکہ کی سرحد کی طرف بڑھ رہا ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ان غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے، بارڈر پر خیمے لگائے جائیں گے جہاں ان تارکین وطن کے کیسوں کا جائزہ لیا جائے گا ، جو اہل نہیں ہو گا ،اسے بارڈر سے ہی واپس بھیج دیا جائیگا۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق پیر کو امریکی فوج کی شمالی کمانڈ کے سربراہ جنرل ٹیرنس او شاگنیسی نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر کے حکم پر 800 فوجی اہلکار ریاست ٹیکساس کے ساتھ واقع میکسیکو کی سرحد کے لیے روانہ ہوچکے ہیں جب کہ مزید فوجی دستے کیلی فورنیا اور ایریزونا کے ساتھ واقع میکسیکن سرحدوں پر تعیناتی کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔
امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ امریکی سرحدوں کا تحفظ قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے اور فوج ان کی ہدایت پر اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔انہوں نے بتایا کہ بعض فوجی اہلکاروں کے پاس اسلحہ بھی ہوگا لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ انہیں اس اسلحے کی ضرورت کیوں پڑے گی۔امریکی حکام واضح کرچکے ہیں کہ سرحد پر تعینات فوجی اہلکار تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے مجاز نہیں ہوں گے بلکہ ان کا زیادہ تر کام سرحد پر تعینات سول حکام کی معاونت اور انہیں لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی سے متعلق ہوگا۔لیکن پیر کو فوجیوں کی سرحد پر تعیناتی کے اعلان کے بعد ایک ٹوئٹر پیغام میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ فوجی دستے سرحد پر قافلے کے منتظر ہوں گے۔ اس پیغام سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ شاید فوجی دستے براہِ راست تارکینِ وطن سے نبٹیں گے۔ایک امریکی اہلکار کے مطابق میکسیکو میں موجود قافلے میں شامل تارکینِ وطن کی تعداد 3500 کے لگ بھگ ہے جو مختلف بنیادوں پر پناہ کے حصول کی امید پر امریکہ میں داخلہ چاہتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ تین ہزار تارکینِ وطن پر مشتمل ایک دوسرا قافلہ اس وقت گوئٹے مالا اور میکسیکو کی سرحد پر موجود ہے اور اس کی منزل بھی امریکہ ہے۔سرحدوں پر فوج کی تعیناتی امریکہ میں ایک غیر روایتی اقدام ہے۔ روایتی طور پر امریکہ میں سرحدوں کی نگرانی اور سرحدوں کے آر پار نقل و حرکت منظم کرنے کا کام سول حکام اور سول سکیورٹی ادارے انجام دیتے ہیں۔وسط مدتی انتخابات سے محض ایک ہفتہ قبل پانچ ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں کی سرحد پر تعیناتی کئی حلقوں کے لیے غیر متوقع ہے جب کہ صدر کے ناقدین اسے انتخابی مہم کا حصہ اور سخت گیر اور امیگریشن مخالف سفید فام ووٹرز کے دل جیتنے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے خود امریکی حکام نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے لیے 800 سے ایک ہزار فوجی اہلکار میکسیکو کے ساتھ سرحد پر تعینات کرنے پر غور کر رہی ہے۔صدر ٹرمپ تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کے سخت مخالف ہیں اور تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ 2016ءکے صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی میں تارکینِ وطن کے خلاف ان کے سخت موقف کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔
صدر ٹرمپ نے حالیہ چند ہفتوں کے دوران ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کے جلسوں میں تواتر سے لاطینی امریکی تارکینِ وطن پر مشتمل قافلے کا ذکر کیا اور ان افراد کو جرائم پیشہ قرار دیتے ہوئے ہر صورت روکنے کا عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔صدر اعلان کرچکے ہیں کہ ان غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ میں داخلے پر عارضی پناہ گزینوں کی طرح خیموں میں رکھا جائے گا اور ماضی کے برعکس انہیں عدالتوں سے ان کی پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک معاشرے میں گھلنے ملنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔امریکی صدر کا موقف ہے کہ اس حکمتِ عملی سے پناہ کے متلاشی مزید تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کی حوصلہ شکنی کی جاسکے گی۔

Related Articles

Back to top button