نیویارک (محسن ظہیر ) امریکی سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز ٹک ٹاک کے خلاف ایک اہم فیصلہ سنایا، جس میں سوشل میڈیا کمپنی کی پہلی ترمیم کے تحت چیلنج کو مسترد کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ اس قانون کو مو¿ثر بناتا ہے جو اتوار سے امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی لگاتا ہے۔
عدالت کے متفقہ فیصلے نے ٹک ٹاک کی امریکی سرگرمیوں کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ ایپ، جو مختصر ویڈیوز کے ذریعے لاکھوں امریکیوں بالخصوص نوجوان نسل کے لیے معلومات اور تفریح کا ذریعہ بنی ہوئی ہے، اب بند ہونے کے قریب ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 170 ملین سے زیادہ امریکیوں کے لیے ٹک ٹاک اظہارِ رائے، رابطے اور کمیونٹی کی ایک منفرد اور وسیع شکل فراہم کرتا ہے۔ لیکن کانگریس نے قومی سلامتی کے خدشات، ڈیٹا جمع کرنے کی پالیسیوں، اور غیر ملکی حریف کے ساتھ تعلقات کی روشنی میں اس کے خاتمے کو ضروری قرار دیا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال موسم بہار میں اس قانون پر دستخط کیے تھے، جو کانگریس میں دونوں جماعتوں کی بھرپور حمایت سے منظور ہوا تھا۔ قانون سازوں نے کہا کہ ایپ کی ملکیت ایک خطرہ ہے کیونکہ چینی حکومت نجی کمپنیوں کی نگرانی کے ذریعے حساس امریکی معلومات حاصل کر سکتی ہے یا خفیہ پروپیگنڈا پھیلا سکتی ہے۔ ٹک ٹاک کے وکیل نے گزشتہ ہفتے عدالت کو بتایا تھا کہ اگر یہ کیس ہار گیا تو ایپ بند ہو جائے گی، لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ عمل کتنی جلدی ہوگا۔
کم از کم ایپ اسٹورز جیسے ایپل اور گوگل پر سخت جرمانے عائد کیے جائیں گے اگر وہ ٹک ٹاک ایپ کو امریکہ میں ڈاو¿نلوڈ یا اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیں گے۔ قانون کے تحت، ان کمپنیوں کو فی صارف پانچ ہزار ڈالرزتک کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا جو پابندی کے بعد ایپ تک رسائی حاصل کرے گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف ٹک ٹاک بلکہ دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں اور صارفین کے لیے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
U.S. Supreme Court Ruling Paves the Way for TikTok Ban in America