کورونا ویکسین کو جتنا جلدی بنایا ، اس سے بھی جلدی تقسیم کرنا ضروری ہے
امریکی ریاست ٹینیسی کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ولیم شیفنر اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ، سان فرانسسکو کے ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر ڈاکٹررابرٹ واشٹر کی میڈیا بریفنگ
نیویارک (اردونیوز ) امریکہ کے معروف طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس وبا کے لئے بنائی جانیوالی ویکسین جتنی جلدی بنائی گئی ، اس سے بھی زیادہ جلدی میں اس ویکسین کی تقسیم ضروری ہے اور یہ ویکسین کی تقسیم کے لئے انفرادی ریاستی نظاموں پر انحصار کی بجائے قومی ایکشن پلان مرتب کرنا اور اس پر عملدار کرنا ضروری ہے ۔
امریکی ریاست ٹینیسی کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ولیم شیفنر اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ، سان فرانسسکو کے ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر ڈاکٹررابرٹ واشٹر کا کہناہے کہ کورونا ویکسین محفوظ ہے اور اس بارے میں انٹر نیٹ پر جو ”نان سنس “ موجود ہے ،اس کی بجائے لوگ میڈیکل اور سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی باتوں پر توجہ دیں ۔ ان ملے جلے خیالات کا اظہار انہوں نے ”ایتھنک میڈیا سروسز “ کے زیر اہتمام آن لائن میڈیابریفنگ سے خطاب کے دوران کیا اور اس دوران کورونا ویکسین کیوں سست روی سے رول آو¿ٹ ہو رہی ہے اور معاملات کہاں اور کن وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں ؟کون سے گروپوں کو پہلے ترجیح دینی چاہئیے اور کون سے گروپ ویکیسن لگوانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ؟سمیت ویکسین کے حوالے سے متعدد اہم سوالات کے جواب بھی دئیے ۔
ڈاکٹر ولیم شیفنر کا کہناتھا کہ ویکسین کی ملک بھر میں ترسیل کے دوران غلط مقام پر ویکسین کا پہنچ جانا ، مطلوبہ مقدار سے کم تعداد میں پہنچنا جیسے بعض معاملات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ویکسین جب مقامی سطح پر ڈیلیور کر دی جاتی ہے تو مقامی سطح پر اسے مختلف مقامات پر تقسیم کیا جاتا ہے یا کہہ دیں کہ ویکسین کو ایڈمنسٹرکیا جاتا ہے (یعنی کہ ویکیسن کے انجکشن لگائے جاتے ہیں )۔فائزر ویکیسن کے حوالے سے سب سے بڑا اور اہم چیلنج یہ آیا کہ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کو نہایت پہ سرد درجہ حرارت پر سٹور رکھا جائے ۔اس مقصد کے لئے فائزر ویکسین کو ایسے بڑے میڈیکل مقامات پر پہنچایا گیا کہ جہاں پر اس کو سٹور کرنے والے مخصوص ڈیپ فریزر اور انتظامات موجود تھے اور ایسے ماہرین و تجربہ کار افراد موجود تھے کہ جو اس ویکسین کے انجکشن ہدایات کےمطابق لگا سکیں ۔
فائزر کے بعد موڈیرنا ویکسین آئی جسے نرسنگ ہوم سنٹرز اور لوکل ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، چھوٹے ہسپتالوں میں پہنچایا جا رہا ہے اور پہنچایا جائے گا، یہ تمام معاملات بھی کچھ وقت لیتے ہیں ۔میں یہ بھی کہوں گا کہ بعض سنٹرز اور افراد نے یہ بھی سمجھا کہ شاید کورونا ویکسین لگانے کے معاملات بھی فلو ویکسین لگانے جیسا معاملہ ہوگا لیکن اس میں بڑے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات میں حیرانی نہیں ہوئی کہ ویکسین کی تقسیم اور اسے ایڈمنسٹر کرنے کے حوالے سے معاملا ت سامنے آئے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اچھی بات یہ ہے کہ کوروناویکسین ، کم سے کم وقت میں تیار کر لی گئی ہے۔ویکسین سے پہلے پی پی ای کٹس اور کورونا ٹیسٹنگ کٹ کے معاملات دیکھیں تو ہمیں انتظامیہ (ٹرمپ انتظامیہ ) کی کارکردگی کچھ متاثر کن نظر نہیں آئی ۔فلو ویکسین کے مقابلے میں کورونا وائرس ویکسین کے معاملات یکسر مختلف ہیں ۔ اس کی تقسیم کو موثر قومی پلان کے تحت یقینی بنانا ہوگا۔قومی پلان کی بجائے ریاستوں پر انحصار کیا گیا اور اب ریاستیں ایک حد تک مقامی اداروں پر انحصار کررہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کس گروپ کو کب ویکسین ملنی چاہئیے ۔اس سلسلے میں ترجیحات کو یقینی بنانا ہوگا۔میں نے بہت سے لوگوں سے سوال کیا کہ اگر وال گرین کو ویکسین لگانے کے لئے دی جاتی ہے تو وال گرین (فارمیسی ) والے کیسے اس بات کا تعین کریں گے کہ جس کو پہلے ویکسین دینا ہوگا ،مجھے اپنے اس سوال کا کسی سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ۔بس یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ہم اس معاملہ کو دیکھ لیں گے ۔میں نہیں سمجھتا کہ یہ میرے مذکورہ سوال کا صحیح جواب ہے ۔ہمیں گذشتہ دس ماہ سے کوروناوائرس وبا جیسے بڑے چیلنج کا سامنا ہے جو کہ مسلسل ہے ۔لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ہم خاطر خواہ تیار نہیں تھے ، وسائل جو مختص کئے گئے ، وہ کم ہیں ۔ان معاملات کی طرف توجہ دینا ہو گی۔کانگریس کی جانب سے ویکسین کے حوالے سے بل منظور کیا گیا جو کہ کم از کم دو ماہ پہلے منظور ہونا چاہئیے تھا۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر نے کہا کہ ویکسین جو کہ فراہم کی گئیں ، ان کا 30فیصد تقسیم کیا گیا ، یہ کوئی اچھی کارکردگی نہیں ہے ۔اب تک جتنے لوگوں کو ویکسین لگا چکی ہیں ، ان کے مقابلے میں لاکھوں مزید لوگوں کو اب تک ویکسین لگ چکی ہونی چاہئیے تھی ۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جو بیمار ہو سکتے ہیں ، ہسپتالوں میںپہنچ سکتے ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں کہ جو شاید مر جائیں ۔لوگ نائن الیون اور پرل ہاربر کی ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے ایک دن میں کورونا سے مر رہے ہیں ۔ اس تناظر میں ہمیں جن ہنگامی حالات میں ویکسین کے معاملے کو ہینڈل کرنا چاہئیے تھا ، شاید ایسا نہیں ہوا۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں ویکسین بنانے کی جتنی ہنگامی بنیادوں پر ضرور ت تھی ، اتنا ہی اس کی ہنگامی بنیادوں پر تقسیم بھی ضروری ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ ویکسین کی بعض ڈوزز ضائع ہونا کوئی زیادہ مسلہ ہے ، اصل مسلہ یہ ہے کہ ویکسین ، فرجریٹرز میں موجود ہیں اور انہیں لوگوں تک پہنچ جانا چاہئیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں 18ہزار ڈوزز ملیں جن میں سے 84فیصد لوگوں کو لگا دی گئیں ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ولیم شیفنر کا کہنا تھاکہ ہمیں بھی تقریباً 19ہزارڈوزز ملیں اور بڑی تعداد میں لگا دی گئیں۔ میں یہاں اہم مسلہ کی طرف توجہ دینا چاہتا ہوں کہ ویکیسن آنے سے پہلے ہم نے اپنے ہیلتھ کیئر سے متعلقہ لوگوں حتیٰ کہ ہیلتھ کیئر ورکرز کا ایک سروے کیا اور معلوم ہوا کہ بڑی تعداد میںلوگ ایسے ہیں کہ ویکسین لگوانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ اور کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں ہم نے لوگوں میں آگاہی پید اکرنے کی باقاعدہ ایک مہم چلائی ، ویڈیوز بنائیں اور معلوماتی لٹریچر تقسیم کئے ۔ہم نے لوگوں کے تحفظات دور کئے ، ان کے ذہنوں میں جو سوالات تھے ، انہیں دور کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیاد ہ سے زیادہ تعداد میں لوگ ویکسین لگوانے کے لئے آرہے ہیں ۔
ڈاکٹر ولیم شیفنر کا کہنا تھا کہ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ خواتین بالخصوص حاملہ خواتین کے ذہنوں میں بہت سے سوالات تھے اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کورونا ویکسین کے حوالے سے انٹر نیٹ پر بہت سارا ’نان سنس‘ مواد موجود ہے ۔لہٰذا ہم خواتین یونٹ میں گئے ، ان سے روابط کئے اور انہیں یقین دہانی کروائی اور آگاہی دی کہ ان کے لئے ویکسین حاصل کرنا محفوظ ہے۔لہٰذا یہ ایک مسلسل عمل ہے ۔ لہٰذا جب ہمیں جب ویکسین موصول ہوئی تو ہمیں لوگوں کو ویکسین لگانے میں کوئی زیادہ دشواری پیش نہیں آئی ۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ کورونا ویکسین نہایت ہی موثر اور محفوظ ہے ۔ ان حالات میں اگر کوئی لوگ دستیاب ہوتے ہوئے بھی ویکسین نہیں لگوا رہے تو اچھی بات نہیں ۔
اس سوال کہ کیا جب کوئی شخص کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لیتا ہے تو کیا وہ دوسری ڈوز لگوانے تک محفوظ رہتا ہے ؟ کے جواب میں ڈاکٹر رابرٹ واشٹر کا کہنا ہے کہ ویکسین کی دو ”ڈوزز“ ہیں ۔فائزر کی تین ہفتوں کے بعد جبکہ موڈیرنا کی چارہفتوں بعد دوسری ڈوز حاصل کرنا ہوتی ہے ۔ جن اعداد و شمار کا میں نے مطالعہ کیا ہے ، ان کے مطابق کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز حاصل کرنے کے دس روز کے بعد بندہ محفوظ ہوجاتا ہے۔جب آپ پہلی ڈوز حاصل کرتے ہیں تو آپ پچاس فیصد اور جونہی آپ ویکسین کی دوسری ڈوز حاصل کرتے ہیں ، تو آپ 80سے90 فیصد محفوظ ہو جاتے ہیں ۔دوسری ڈوز “بوسٹ “ دیتی ہے جس سے ویکسین کے 95فیصد محفوظ ہونے کے نمبر تک پہنچا جاتا ہے۔ویکسین کی سٹڈی کے تحت فائزر اور موڈیرنا کی دو ڈوزز حاصل کرنا ضروری ہیں ۔ میرا نہیں خیال کہ پہلی ڈوز حاصل کرنے کے بعد جو امیونٹی پیدا ہوتی ہے وہ دوسری ڈوز تک گر جائے گی لیکن جیسے کہ پہلے کہا کہ کہ دوسری ڈوز مطولبہ ہدف حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے ۔
اس سوال کہ اگر آپ کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لیتے ہیں تو کیا آپ اہل خانہ یا ارد گرد موجود افراد تک کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کو روک دیتے ہیں ؟کے جواب میں ڈاکٹر ولیم شیفنر کا کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ ویکسین کی پہلی اور پھر دوسری ڈوز تقسیم کی جا رہی ہیں ۔ ویکسین کی دنیا میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ’ ویکسین کی ڈوز میں تاخیر کا مطلب ہے کہ ویکسین کی ڈوز حاصل نہیں کی ‘۔جتنا پہلی ویکسین حاصل کرنا ضروری ہے ، اتنا ہی واپس جا کر دوسری ڈوز حاصل کرنا بھی ضروری ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئیے ۔جہاں تک مذکورہ سوال کا تعلق ہے تو واضح جواب نہیں لیکن موڈیرنا ویکسین بنانے والوں نے ایک سٹڈی کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بڑی حد تک لوگ ویکسین لگوانے کے بعد وائرس کے پھیلاو¿ کا سبب نہیں بنتے ۔لیکن پھر بھی یہی کہیں گے کہ ایک حد تک آپ وائرس کے پھیلاو¿ کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ لہذا میرا مشورہ یہی ہوگا کہ قطع نظر اس امر کہ آپ نے ویکسین کی ایک یا دونوں ڈوز حاصل کر لی ہیں ، آپ ماسک پہنیں، سماجی فاصلے کی پباندی کریں اور احتیاط کریں ۔جب ہمیں مکمل اعداد و شمار حاصل ہو جائیں گے تو حتمی جواب دیں گے اور یقینی طور پر میڈیکل سائنس میں سفارشات میں ردو بدل کیا جاتا رہتا ہے ۔جتنا ہمیں علم ہوگا ، اتنا ہی زیادہ ہم اس قابل ہوں گے کہ اہم امور کے بارے میں واضح ہدایات اور سفارشات دے سکیں ۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر کا کہنا تھا کہ قومی سطح پر ویکسین لگانے کی شرح مطلوبہ شرح سے کم ہے جو کہ صحیح نہیں ۔کورونا ویکسین امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں سب سے بڑا مسلہ ہے۔ جتنا جلدی ہم لوگوں کو ویکسین لگائیں گے اتنا جلدی انہیں اس وبا سے محفوظ بنائیں گے ۔ اس لئے ہمیں ویکسین لگانے کے عمل کو ہر ممکن حد تک تیز اور یقینی بنانا ہوگا۔میں پھر کہوں گا کہ ابھی جتنی ویکسین دستیاب ہے ، اس کا بیشتر حصہ ریفرجریٹرز میں پڑا ہو اہے۔ویکسین لگوانے کے عمل کو بھی آسان بنانا چاہئیے ، اپوائنٹمنٹ اور رجسٹریشن سمیت دیگر معاملات کے حوالے سے کوئی پچیدگیاں نہیں ہونی چاہئیے ۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو بلا تاخیر ویکسین لگانی چاہئیے ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ولیم شیفنر نے کہا کہ ہمیںلوگوں کو مسلسل باور کرواتے رہنا ہوگا کہ کورونا وبا بہت خطرناک وبا ہے اور ویکسین لگوانا نہایت ہی اہم ہے ۔اس سوال کہ بائیڈن انتظامیہ کو کیا کرنا چاہئیے کہ جواب میں ڈاکٹرشیفنر کا کہنا تھا کہ ہمیں ریاستی سطح پر نہیں بلکہ ایک ایک فیڈرل پالیسی اور قومی پلان کی ضرورت ہے جو پر نئی انتظامیہ نے کام شروع کر دیاہے۔عوام کو واضح پیغا م دینے چاہئیے اور ان سے کمیونی کیٹ کرتے رہنا چاہئیے ۔میڈیکل اور سائنسی اصولوں پر سختی سے کار بند ہونا ہوگا۔ویکسین کی تقسیم کے حوالے سے تمام مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا او ر اگر آپ ایک کلینک چلا رہے ہیں تو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ کلینک میں ویکسین دستیاب ہے۔تمام عمل میں اپنے اجتماعی کردار کو یقینی بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر نے کہا کہ قیادت کا کردار نہایت اہم ہے ۔ نئی انتظامیہ لوگوں کو آگے لا رہی ہے جو کہ خوش آئند ہے ۔ایک قابل غور امر یہ ہے کہ جونہی 65سے کم عمر کے لوگوں کے لئے ویکسین کی دستیابی کا مرحلہ آئے گا تو بڑی تعداد میںلوگ رابطہ کریںگے ، اگر فون کال کریں گے تو لائنیں جام ہو جائیں گی ، ویب سائٹ پر بڑی ٹریفک کے مسائل پیدا ہوں گے ، بڑی قطاروں میں کھڑے ہو جائیں گے تو وہ بھی مسلہ ہوگا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ویکسین کی تقسیم اور اسے لگانے کے عمل کو ہر قسم کی پچیدگیوں سے قبل از وقت ہموار بنانے کی ضرورت ہے اور ہ کم بروقت بلکہ قبل از وقت کیا جانا چاہئیے ۔لاٹری سسٹم کا آئیڈیا بھی اچھا ہے ۔
میسنجر آر این اے (mRNA) اور ویکسین کی کم عرصے میں تیاری کے بارے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ولیم شیفنر نے کہا کہ پندرہ سے بیس سال پہلے ویکسین بنانے کی سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ جتنی آج ہے ۔21ویں صدی میں ٹیکنالوجی کی مدد سے مسائل کے حل میں مدد مل رہی ہے جو کہ پہلے ایک مسلہ تھا۔دوسری اہم بات یہ کہ لوگ دن رات کام کررہے ہیں اور گورنمنٹ ایسے منصوبوں کو فنڈز فراہم کرتی ہے جس سے بہت سی رکاوٹیں دور ہوئیں ۔پھر یہ ہوا کہ ویکسین ٹرائل اور مینو فیکچرنگ کے کام بھی بیک وقت کئے گئے جو کہ بالعموم مرحلہ وار ہو ا کرتے تھے ۔لہٰذا جونہی ویکسین کے کلینکل ٹرائل کی منظوری دی گئی ، پہلے سے مینو فیکچرنگ ویکسین کی تقسیم کا عمل شروع ہو گیا۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹرنے کہا کہ اپریل مئی تک کورونا ویکسین ترجیحی گروپوں کو مل جائے گی اور اس کے بعد امکان ہے کہ اس کی فلو ویکسین کی طرح سی وی ایس اور وال گرین جیسے سٹوروں پر بھی عام دستیابی ہو گی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم 55سے75اور زائد سال کی عمر کے لوگوں کو ویکسین لگا دیتے ہیں تو ہم بڑی تعدادمیں ممکنہ اموات کی شرح میں کمی لا سکتے ہیں ۔اس کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہو گا کہ جتنی زیادہ تعدادمیں لوگ ویکسین سے محفوظ ہوں گے اتنا ہی ہسپتالوں میں مریضوں کا بوجھ کم ہو گا۔
اس سوال کہ جن لوگوں کو ویکسین نہیں ملی، وہ اگر ویکسین لگوانے والے لوگوں سے ملیں تو کیا انہیں ماسک سمیت دیگر احتیاط کرنی چاہئیے ، کے جواب میں ڈاکٹررابرٹ واشٹر نے کہا کہ ابھی ہم اس سوال کا سو فیصد جواب نہیں دے سکتے ۔ یعنی کہ میں سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کورونا ویکسین لگوائی ہے تو اس صورت میں بھی ، میں وائرس حاصل کرکے اپنے کسی قریبی شخص کو منتقل کرسکتا ہوں ۔ اس لئے احتیاط مسلسل کرتے رہیں ۔ اپنی مثال دوں تو یہ کہوں گا کہ ویکسین لگوانے کے بعد میں وہ کام کروں گا کہ جو پہلے شاید نہیں کرتا تھا ۔ یعنی کہ میں اپنے ڈینٹسٹ کے پاس جا سکوں گا، اپنی عمر رسیدہ والدہ سے مل سکوں گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ تبدیلیاں ہیں کہ جو ہم اپنے روئیے میں محسوس کر سکیں گے ۔لہٰذا ویکسین لگوانے کے بعد بھی میں ماسک بدستور پہنتا رہوں گا۔
ڈاکٹر ولیم شیفنر نے کہا کہ جب تک پبلک ہیلتھ حکام ماسک اتارنے کا نہیں کہتے ، اس وقت تک ماسک پہننا ہوگا اور ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ویکسین لگانے سے پہلے لوگوں کا کوووڈ ٹیسٹ نہیں کررہے۔ ہم ان لوگوں کو بھی ویکسین لگا رہے ہیں کہ جن کہ کورونا کا شکار ہو ئے ۔پہلی بات یہ کہ اگر ہم پہلے ٹیسٹ کریں تو اخراجات بہت بڑھ جائیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جب ویکسین لگائیں ، اس وقت تک کووڈ ٹیسٹ کا نتیجہ ہی نہ آیا ہوں ۔ لہٰذا یہ وہ پریکٹیکل دشواریاں ہیں کہ جن کوپیش نظر رکھتے ہوئے ہر ایک کو ویکسین لگاتے ہیں ۔
ڈاکٹر رابرٹ واشٹر نے کہا کہ کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد آپ کو جو امیونٹی حاصل ہو گی ، اس کے مقابلے میں ویکسین سے حاصل ہونے والی امیونٹی (قوت مدافعت) شاید زائد عرصے کے لئے قائم رہے ۔
ڈاکٹر ولیم شیفنر نے کہا کہ
کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہئیے ؟اس اہم سوال کے جواب میں ڈاکٹر ولیم شیفنر کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کہ جو حاملہ ہونا چاہتی ہیں یا وہ خواتین کہ جو حاملہ ہیں، دونوں صورتوں میں انہیں کورونا ویکسین لگوانی چاہئیے ۔ ویکسین کا ان کے حمل پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ وہ کورونا وائرس وبا سے محفوظ ہوں گی ۔
The Challenges of Vaccine Distribution