نیویارک میں 14ویں سالانہ انٹر نیشنل شہادت کانفرنس
میدان امتحان میں کرامتیں نہیں کردار دکھایا جاتا ہے ۔ امام عالی مقام ؑ نے وہ کردار دکھایا کہ جو 1400برس گذر جانے کے باوجود آج بھی مشعل راہ ہے
امام عالیٰ ؓمقام دین اسلام کو اس کی اصل پر باقی رکھنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے وہ قربانی پیش کی کہ جس کی کائنات میں کوئی مثال ہے اور نہ ہو گی، علماءکرام کے خطاب
کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی ،بیرسٹر سید وسیم الحسن شاہ نقوی اور پیر سید عرفان شاہ بخاری حافظ آبادی ، قاری یونس قادری اور پیر احمد ثقلین حیدر شاہ کے خطابات
یذید نے کفر سے بھی بڑا جرم کیا ۔ وہ کافروں سے بدتر شخص اور لعنتی شخص تھا،سوال یہ ہے کہ کیا یذید پلید نے ابن زیاد سمیت کسی قاتل کو کوئی سزا دی ؟ وہ واقعہ کربلا کا سو فیصد ذمہ دار تھا،وہ بری الذمہ نہیں ہے
امام حسین پاک ؑ گردن کٹا گئے ، یزیدیت کو مٹا گئے اور دین اسلام کو بچا گئے، کانفرنس سے علامہ کوکب نورانی ،بیرسٹر سید وسیم الحسن شاہ اور پیر سید عرفان شاہ بخاری اور پیر احمد ثقلین حیدر شاہ کا خطاب
رحمت للعالمین ﷺکی نگاہ کرم سے بندے کا وہ مقام ہوجاتا ہے کہ فرشتے ناز کرتے ہیں۔ ان کے رحمت کا عالم کیا ہوگا کہ جن کی رگوں میں نبی کریم ﷺکا خون دوڑ رہا ہو، شہادت کانفرنس نیویارک
نیویارک (اردو نیوز ) سید الشہدائؓ،راکب دوش مصطفےٰ ﷺ،نور چشم سیدہ فاطمة الزہراؓ، جگر گوشہ مولا مرتضیٰؓ، امام عالی مقام سردار نوجوانان اھل جنت ،فاتح کرب وبلا، فخر کونین حضور سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر شہدائے کرب و بلا کے حضور عقیدتوں محبتوں کا پر خلوص خراج پیش کرنے کیلئے14 ویں سالانہ عظیم الشان انٹرنیشنل شہادت کانفرنس ،ہفتہ پانچ ستمبر 2020 ءبعد نماز مغرب ، طیبہ اسلامک سنٹر بروکلین (نیویارک)میں منعقد ہو ئی۔کورونا وائرس وبا کی وجہ سے نیویارک میں بڑے اجتماعات پر پابندی ھے اس لیے یہ کانفرنس مختصر پیمانے پر طیبہ اسلامک سنٹر میں منعقد ہوئی لیکن منتظمین نے اپنی روایات کے مطابق اسے انٹر نیشنل کانفرنس رکھا۔ پاکستان سے بذریعہ انٹر نیٹ آن لائن ملک کے ممتاز عالم دین خطیب ملت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی ، فاضل نوجوان بیرسٹر پیر سید وسیم الحسن شاہ نقوی اور پیر سید عرفان شاہ بخاری حافظ آبادی نے خطاب کیا جبکہ پیر احمد ثقلین حیدر شاہ ، قاری اعجاز احمد نے اجتماع میں شرکت کی اور نیویارک سے ہی سے خصوصی خطاب کیا۔ حسب معمول قاری محمد یونس قادری نے اپنے مخصوص انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیے۔قاری محمد اعجاز نے تلاوت قرآن مجید کی۔
سجادہ نشین آستانہ عالیہ غوث یگانہ چھالے شریف پاکستان پیر طریقت صاحبزادہ پیر سید انتصارالحسن شاہ نے آن لائن خصوصی دعا کروائی۔
چوہدری محمد پرویز اشرف ، محمد شفیق مہر، مہر سلیم اختر، ارشد فاروق سمیت ساتھیوں کے زیر اہتمام منعقد ہونیوالی کانفرنس کی انتظامیہ کے دیگر اراکین میں سائیں محمد الیاس ،جمشید عارف سمیت دیگر شامل تھے۔ ثناءخوانان مصطفی و منقبت خوانان سجاد بٹ اورمحمد عاطف نے بار گاہ رسالت ﷺ اور بارگاہ امامت ؓ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
کانفرنس کے دوران طیبہ اسلامک سنٹر تمام وقت نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور نعرہ حیدری کی پر جوش صداوں سے گونجتا رہا۔کانفرنس کے آن لائن انتظامات کے انعقاد میں محمد اقبال کنٹریکٹر اور چوہدری نراسب علی نے خصوصی کردار ادا کیا اور کانفرنس انتظامیہ کی جانب سے ان کے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
شہادت کانفرنس سے خطاب کے دوران حضرت خطیب ملت ڈاکٹر علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی ،بیرسٹر سید وسیم الحسن شاہ نقوی حافظ آباد ی اور پیر سید عرفان شاہ بخاری حافظ آبادی، پیر احمد ثقلین حیدر شاہ اور قاری محمد یونس قادری نے سید الشہدائؓ امام حسین ؓ سمیت شہداءؓکربلا ؓ کی عظیم و بے مثال قربانی کو نہایت و عقیدت و احترام کے ساتھ بیان کرتے ہوئے بھر پور والہانہ خراج عقیدت پیش کیا اور فلسفہ شہادت اور واقعہ کربلا کے اثرات کے اہم پہلووں کو نہایت ہی مدلل انداز میں واضح کیا۔
مولانا علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی نے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کربلا کا واقعہ ذاتی اقتدار کی نہیں بلکہ دینی ایمانی شرعی بالا دستی کی جنگ تھی ، کوئی مال و دولت یا دنیوی جاہ وحشمت کی جنگ نہیں تھی۔ امام عالیٰ ؓمقام دین اسلام کو اس کی اصل پر باقی رکھنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے وہ قربانی پیش کی کہ جس کی کائنات میں کوئی مثال ہے اور نہ ہو گی۔امام عالی مقام ؓ نے اپنے باوفا اصحاب ؓ کے ساتھ دین اور شریعت و سنت کی حفاظت کےلئے بڑی قربانی دی۔ وہ دین کو اپنے عہد میں سب سے زیادہ جاننے اور سمجھنے والے تھے اور اپنے عہد کی افضل ترین ھستی تھے۔ انھیں اور ان کے مثالی کردار کو سلام کرنے اور ان کا احسان ماننے کی بجاے واقعہ کربلاءپربحث کرنا افسوس ناک اور اذیت ناک ھے۔ انہوں نے کہا کہ سیدنا امام حسین ؓ کی شہادت پر زمین و آسمان روئے۔ قرآن کریم میں بیان موجود ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کےلئے نہ آسمان رویا اور نہ زمین روئی۔ معلوم ہوا کہ اللہ والوں پر آسمان وزمین روتی ہے۔ امام پاک پر وہ ظلم ڈھایا گیا کہ آسماں و زمیں روئے ہی نہیں بلکہ خون کے آنسو روئے۔ سات دن تک آسمان سے شبنم کی طرح خون برسا۔ یزیدی لشکر نے امام پاکؓ کے لشکر کے اونٹ پکڑ کر اپنے کھانے کے لیے ذبح کئے تو ان کے گوشت کا ذائقہ اتنا کڑوا تھا کہ وہ ایک لقمہ بھی نہ کھا سکے، یعنی جانوروں کو بھی بہت صدمہ ھوا۔ یزیدپلید ہی واقعہ کربلا کا مکمل ذمہ دار ہے۔ اس کے حکم پر ہی ابن زیاد نے امام پاک کو قتل کیا۔جو لوگ یزید پلید کی حمایت کرتے ہیں وہ خود کو دنیا و آخرت کا مجرم بنا لیں گے۔
مولانا علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی نے کہا کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓاور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ دونوں نے ایک ہی وقت میں خواب میں دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک بوتل ہے جس میں خون ہے ، آثار بتا رہے ہیں کہ کہیں سفر سے آئے ہیں ، دونوں نے عرض کی کہ قربان جائیں ، کیا بات ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں حسین ؓ کی شہادت گاہ سے آیا ہوں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ ؓ کو کربلاء کی مٹی دی تھی اور فرمایاتھا کہ جس دن یہ مٹی خون ہو جائے سمجھ لینا کہ میرا بیٹا کربلاءمیں شہید کر دیا گیا؟آقا کریم ﷺجانتے تھے کہ جب یہ سانحہ ہوگا تو میری یہی اہلیہ زندہ ہوں گی۔ انہوں دیکھا تو وہ مٹی خون ھو چکی تھی۔مولانا کوکب نورانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن میں ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تماری مدد کرے گا۔ میدان کربلا میں شدید مصائب میں آل رسول ؓ کا ثابت قدم رہنا بلا شبہ اللہ کی مدد تھا ورنہ ایسے لرزا دینے والے حالات میں دل فیل ھوجاتے ہیں۔بلا شبہ امام پاک ؓبڑی شان والے تھے انہوں نے حق و صداقت کے لیے اتنی تکالیف برداشت کیں۔ وہ چاہتے تو یز یدی لشکر تباہ و برباد ہو جاتا، امام پاک ؓجانتے تھے کہ میدان امتحان میں کرامتیں نہیں کردار دکھایا جاتا ہے۔ امام عالی مقام ؓ نے وہ کردار دکھایا کہ جو 1400برس گذر جانے کے باوجود آج بھی رہنما اور مشعل راہ ہے۔
یز ید فاسق و فاجر ، ظالم و جابر تھا۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؓنے یز ید کے کفر کا فتویٰ دیا۔یز ید نے کفر سے بھی بڑا جرم کیا۔ وہ کافروں سے بدتر شخص اور ایک لعنتی شخص تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا یذید پلید نے ابن زیاد سمیت کسی قاتل کو کوئی سزا دی۔ وہ واقعہ کربلا کا سو فیصد یقینی طور پر ذمہ دار ھے۔اسے بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش کرنے والے ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔
مولانا علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی نے کہا کہ اہل بیت اطہار کا قافلہ جب واپس مدینہ منورہ پہنچا تو سب سے پہلے مسجد نبوی آیا، مدینے والوں کا کہناکہ مدینہ میں دو بار قیامت قائم ہوئی ، پہلی اس دن کہ جس دن نبی پاک ﷺکا وصال ہوا اور دوسری اس دن جب کہ کربلاءسے قافلہ آقا کریم کے روضہ پاک پر پہنچا۔ امام زین العابدین ؓنے کہا کہ نانا پاک ، آپ کے بیٹے نے آپ سے کیا ھوا وعدہ پورا کیا، انہوں تمام احوال سنانے شروع کیے تو لوگوں نے کہا کہ امام زین العابدین ؓبس کریں، ہمارے کلیجے پھٹ جائیں گے ، امام زین العابدینؓ بہت رویا کرتے تھے ، اکثر روزے سے رہتے تھے۔
مولانا کوکب نورانی نے کہا کہ واقعہ کربلا کے بعد بھی یز ید کے سیاہ کردارکو دیکھیں ،ا س کے دور میں حرام کام کھلے عام ہوتے رہے ، شراب عام ہو گئی تھی ، اللہ کے حرام کئے ہوئے کو اس نے حلال ٹھہرا دیا تھا۔میں کہانی نہیں حقائق بیان کررہا ہوں۔یزید چالیس سال سے کم عمر میں مر گیا۔انہوں نے کہا کہ امام پاک ؓ کے سامنے آنے والے خود کو مسلمان سمجھتے تھے ، نمازیں پڑھتے تھے اور نماز میں آل رسول ؓپر درود بھیجتے تھے مگر ان لعینوں نے آل رسول ؓکو بھوکا پیاسا ذبح کیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ جب انسان پر حرص و ہوس طاری ہو جائے تو عقلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور دلوں پر مہریں لگ جاتی ہیں۔
مولانا کوکب نورانی نے کہا کہ کربلا میں امام پاک کی اولا دمیں ایک بیٹا بچا تھا۔ یز ید کے 14بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں، کسی ایک بھی اولاد نہیں چلی، سب ختم ہو گئے۔اس کی نسل ختم ہو گئی۔ امام پاکؓ کا ایک بیٹا بچا مگر ساری دنیا نسل حسین پاک سے بھری ہوئی ہے۔قاتلان حسین کا انجام دنیا میں برا ھوا اور آخرت میں برا ہوگا۔ جنہوں نے آل رسول سے محبت کی ، وہ آج بھی سرخرو ہیں۔
سلطان کربلا کو ہمارا سلام ہو۔۔۔جانان مصطفی کو ہمارا سلام ہو
بیرسٹر سید وسیم الحسن شاہ اور پیر سید عرفان شاہ بخاری اور پیر احمد ثقلین حیدر شاہ نے کہا کہ امام علی مقام امام حسین ؓ کا ذکر کرتے ہیں کہ جو گردن کٹا کر بھی چپ نہیں ہوئے۔ امام حسین پاک ؓ گردن کٹا گئے ، یزیدیت کو مٹا گئے اور دین اسلام کو بچا گئے۔ امام عالی مقام امام حسین ؓوہ شہید ہیں کہ جن کی شہادت کے چرچے مولا مصطفی کریم ﷺنے پیدائش کے وقت کئے۔ وجود حسین ؓ،وجود اسلام ہے، وجود ایمان ہے اور یہی وجود تو وجود محمد ہے۔ نبی کریم سب کےلئے رحمت بن کر آئے جو بھی حلقہ رحمت میں آیا تو رحمتوں کا پیکر بن گیا۔ رحمت للعالمین ﷺکی نگاہ کرم سے بندے کا وہ مقام ہوجاتا ہے کہ فرشتے ناز کرتے ہیں۔ ان کے رحمت کا عالم کیا ہوگا کہ جن کی رگوں میں نبی کریم ﷺکا خون دوڑ رہا ہو۔
پیر ثقلین حیدر شاہ نے کہا کہ عہد کریں کہ ہم نہ امام حسین پاک ؓکو بھلائیں گے اور نہ آپ کا سجدہ بھلائیں گے۔ پانچ وقت کا سجدہ ، امام حسین ؓسے وفا کی دلیل ہے۔
بیرسٹر سید وسیم الحسن شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میدان کربلا میں امام عالی مقام حضرت حسین ؓقرآن کے ساتھ اور قرآن، حسین ؓکے ساتھ تھا۔ امام حسین ؓنے قرآن کی عظمت کا جھنڈابلند کیا۔ مولا حسین ؓکا سر نیزے پر چڑھایا تو بھی قرآن کی تلاوت نہ رکی۔
ثناءخوانان اور منقبت خوانان نے بار گاہ مصطفی ﷺ اور بار گاہ حسینیت ؓ میں ہدئیہ عقیدت پیش کیا۔آخر میں پیر احمد ثقلین حیدر شاہ نے خصوصی دعا کروائی۔
International Shahadat e Imam Hussain (AS) Conference New York 2020 at Tayyaba Islamic Center Brooklyn