تحریک انصاف کے پچاس دن، اپنا کنونشن اور امریکہ میں مڈٹرم الیکشن
گپ شپ ۔۔۔سلمان ظفر
جولائی 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی لیکن حکومت سازی ی پوزیشن میں نہیں تھی ۔اسے دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان سے اتحاد کرکے اپنی حکومت بنانا پڑی ۔جیسا کہ سب کو علم ہے کہ پی ٹی آئی عام انتخابات سے قبل مسلسل کہتی آئی ہے کہ ایم کیو ایم غدار ہے اور مسلم لیگ ( ق ) کرپٹ ہے۔ مگر پھر بھی ان دونوں جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر لیا گیا۔
اس بات کا اندازہ سب کو ہے کہ پاکستان میں حکومت بنانے کے لئے جب اتحاد کیا جاتا ہے تو پھر کوئی چور یا ڈاکو نہیں دیکھا جاتا کیونکہ حکومت بنانے کے لئے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔اب اس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے پچاس دن سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس بات کا تجزیہ کرنا ہے کہ ان پچاس دنوں میں اس حکومت نے کیا کیا ہے۔
۱۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی درخواست کر دی گئی ہے مگر آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کر دی ہیں۔۲۔ سعودی عرب کے ساتھ معاملات جاری ہیں ، حتمی طور پر سی پیک معاہدے میں سعودی عرب کی بطور سٹریجک پارٹنر شرکت کی تفصیلات کا انتظار ہے ۔اس تفصیل کا بھی انتظار ہے کہ آیا سعودی عرب ، پاکستان کو ادھار تیل دے گا ؟
۳۔ بھارت کے ساتھ تعلقات مزید بگڑ گئے ہیں جس میں اگر کہا جائے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی زیادہ ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔
۴۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 135روپے ہو گئی ہے۔
۵۔ مہنگائی کا طوفان آ گیا ہے۔
اور بہت کچھ۔
الیکشن سے پہلے کہا جاتا تھا ہم بھکاری نہیں کہ آئی ایم ایف یا کسی اور سے قرضہ نہیں مانگیں گے۔
ابھی تک موجودہ حکومت کا کوئی ایجنڈا بھی سامنے نہیں آیا بلکہ ایک ہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ ہم کرپٹ سیاستدانوں کا کرپشن سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے مگرابھی تک اس بارے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا جا سکا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اس ہفتے کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کچھ سیٹیں مسلم لیگ ( ن ) نے جیت لیں ہیں جس میں خاقان عباسی ،خواجہ سعد رفیق،اویس لغاری کے نام اہم ہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ ہم اقتدار کے پہلے سو دن کے بعد عوام کو خوشخبری سنائیں گے مگر اب ان سو دنوں میں سے پچاس دن گزر چکے ہیں اور ابھی تک خوشخبری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ہماری تو دعا ہے کہ سو دن میں عوام کو بہت بہت اچھی خبریں سننے کو ملیں۔
ہمارے خیال میں سو دن کم ہیں، اگر ملک کے لئے کچھ اچھا کرنا ہے تو چھ ماہ کا عرصہ ہونا چاہئیے کیونکہ موجودہ حکومت ناتجربہ کار ہے اور اس کو کچھ وقت لگے گا۔اگر یہ حکومت ملک کے لئے کچھ نہ کر سکی تو پھراس کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات کرنی چاہئیے ۔
عمران خان ماضی کی حکومتوں اور ان کی جانب سے چھوڑے جانے والے بوجھ کے کارڈ کو چھ یا کچھ زائد ماہ کے لئے تو استعمال کر سکیں گے لیکن اس کے بعد یہ کارڈ کارامد نہیں رہے گا اور اگر حکومتی کارکردگی کے مثبت نتائج نہ دئیے گئے تو عمران خان کے سیاسی مستقبل کو بڑا دھچکا پہنچے گا ۔ہماری تو ایک ہی دعا ہے کہ کوئی بھی اقتدار میں آئے ملک اور عوام کے لئے کچھ اچھا کر دیں ورنہ تنقید زدہ سیاست اپنے انجام کو کبھی نہیں پہنچ سکے گی۔اس کے ساتھ ساتھ ذاتی رنجشوں اور لڑائیوں کو ختم کیا جائے اور آئیے سب اکٹھے مل کر ملک کے لئیے کام کریں۔ مل کر ملک میں ڈیم بنائیں، ملک کے دشمنوں کو شکست دیں ، اپنے ملک کی بنائی ہوئی چیزوں کو خریدیں۔
نیویارک سٹیٹ میں گذشتہ دنوں اپنا نیویارک چیپٹر کا کنونشن ہوا جس کے کامیاب انعقاد پر ڈاکٹر چیمہ اورڈاکٹر رضوان اور ان کی ٹیم کامیابی کی مستحق ہے ۔اپنا جیسی موثر اور بڑی تنظیمیں بہت کچھ کررہی ہیں اور بہت کچھ کر سکتی ہیں ،
آخر میں پاکستانی کمیونٹی سے گذارش ہے کہ نومبر میں امریکہ کے مڈٹرم الیکشن ہو رہے ہیں ۔ ان الیکشن میں اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں ۔ ووٹ ڈالیں بھی اور امیدواروں سمیت اپنے حلقہ کے لوگوں کو اپنی بطور ووٹر موجودگی کا احساس اور اہمیت بھی دلائیں ۔پاکستان سے زیاد ہ مقامی سیاست میں حصہ لینا زیادہ ضروری ہے کیونکہ ہماری مقامی مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہونے ہیں ۔