عمران خان کی درگاہ پر حاضری اور ”ایلیکٹ ایبل“ کی سیاست (سلمان ظفر)
گپ شپ ۔۔۔۔۔سلمان ظفر
عمران خان اپنے وقت میں کرکٹ کے ہیرو اور بے تاج بادشاہ ہوتے تھے۔ انہوں نے کھیل کے میدان میں اپنا نام بھی کمایا اور پاکستان کا نام بھی دنیائے کرکٹ میں خو ب روشن کیا تھا۔کرکٹ کے عروج پر پہنچنے کے بعد اور اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے اپنی والدہ مرحومہ شوکت خانم کے نام پر لاہور میں کینسر کا اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہاں پر کینسر کے مستحق و ضرورت مندمریضوں کا مفت علاج کیا جاسکے ۔انہوں نے فنڈ ریزنگ کا سلسلہ شروع کیا جو کہ آج تک چل رہا ہے ۔ عوام نے اپنے ہیرو کے کہنے پر دل کھول کر عطیات دئیے اور ان کی محنت رنگ لائی کینسرہسپتال مکمل ہو گیا اور آج بھی وہاں کینسر کا علاج جاری ہے۔ماشاءاللہ اب لاہور کے بعد کراچی اور پشاور میں بھی کینسر ہسپتال کی تعمیر جاری ہے ۔شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور اپنی نوعیت کا پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال ہے جہاں حسب استطاعت ضرورت مند کا ہر ممکن و فری علاج جاری ہے۔
کھیل کے میدان سے فلاحی کاموں کا سلسلہ کرنے والے عمران خان دو سے زائد دہائیوں قبل سیاست میں آئے اور پاکستان تحریک انصاف کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی ۔انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنائی جو آج اپنے عروج پرہے۔ اس جماعت نے اصولوں پر طویل جدوجہد کی ، ایک نہیں دو نہیں بلکہ اس بار تیسری بار انتخابی معرکہ اور میدان میں سرگرم عمل ہے ۔
رواں ماہ میں ہونیوالے الیکشن اور تحریک انصاف کا کرار اس کے ماضی کے حوالے سے مختلف ہے ۔ اس بار عمران خان نے ”ایلیکٹ ایبل “ کی کڑوی گولی بھی آسانی سے نگل لی ہے اور وہ ہر صورت میں جیت چاہتے ہیں، نمبر گیم پوری کرنا چاہتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے لوٹوں کےلئے تحریک انصاف کے دروازے کھول دئیے ۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے اصولوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک حقیقی تبدیلی کے چاہنے والوں کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے کہ سٹیٹس کو ، کیسے توڑا جا ئیگا کہ اگر سٹیٹس کو کا برس ہا برس تک حصہ رہنے والوں کو تحریک انصاف اپنا حصہ بنا لے گی ۔
عمران خان نے اپنے ہی اصولوںکی نفی کی ہے ، جو معیار قائم کیا تھا، اس پر ہی سمجھوتہ کر لیاہے ، زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا ،چند ہفتوں میںمعلوم ہو جائیگا کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے یا واقعی اس سے تبدیلی آئے گی اور اگر آ بھی گئی تو کیا دیر پا ثابت ہو گی !!!!
یہ بات قابل غور ہے کہ عمران خان نے کرپشن کے بارے میں جو آواز اٹھائی تھی اس کی وجہ سے آج عوام میں شعور بیدار ہو گیا ہے کہ وہ اب اپنے حلقہ کے امیدواروں سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ ووٹ لینے تو آ جاتے ہیں مگر اپنے حلقہ کے لئیے کام کیا کیا ہے؟ اس سے پہلے عوام میں اتنی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ سیاستدانوں سے براہ راست اس قسم کے سوالات کرتے۔انتخابی مہم کے دوران عمران خان کا پاکپتن شریف میں حضرت بابا فرید ؒ کے دربار شریف پر حاضری بھی زیر بحث ہے ۔ بزرگ ہستیوں کے آستانے رشد و ہدایت کے مرکز تو ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کسی بھی برگزیدہ بزرگ نے ما سوائے خدا کے کسی کو سجدہ کرنے کی کبھی تعلیم نہیں دی ۔ عمران خا ن نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے سجدہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدے کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔عمران خان اپنی سیاسی اننگ کے آخری مراحل میں ہیں ، اس مرحلے پر جہاں ان کے چوکھے چھکے انہیں کامیاب کے قریب لے جا سکتے ہیں ، وہاں ان کی غلط شاٹس کا انہیں انہیں نقصان بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے ۔ عمران خان نے برس ہا برس جو سبق پڑھایا ہے ، اسے عوام جلد بھلا نہیں سکتے ۔