پاک بھارت کشیدگی اور اوورسیز کمیونٹی
سعودی شہزادے محمد بن سلطان کا دورہ پاکستان ، حکومت کو کیا ملا اور عوام تک کیا پہنچے گا!
گپ شپ
۔۔۔۔۔
سلمان ظفر (نیویارک )
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوانہ میں پیش آنے والے واقعہ کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات نہایت کشیدہ ہیں ۔یہ کشیدگی پاکستان اور بھارت کے عوام کی طرح اوورسیز میں بسنے والی کمیونٹی میں بھی نظرآرہی ہے ۔جہاںتک اوورسیز کمیونٹی کی بات کی جائے تو میں کہوں گا کہ بھارتی قیادت، میڈیا اور عوام کی طرح اوورسیز میں بھی بھارتی کمیونٹی کی جانب سے جنونیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے ۔اگلے روز نیوجرسی کے رائل البرٹ پیلس میں پاکستانی فنکار فواد خان کا ایک پروگرام ایک انڈین پارٹی ہال رائل البرٹ پیلس میں تھا جسے انڈین منتظمین نے عین وقت پر منسوخ کرکے اپنی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ۔ بحرحال فوری طور پر ایڈیسن ہوٹل میںشو کے انتظامات کرکے اس کو منسوخ ہونے سے بچایا گیا۔
پہلے تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں ،سعودی عرب اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات سات سے زائد دہائیوںسے چلے آ رہے ہیں۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایک بڑا کام کیا تھا اور وہ تھا اسلامک کانفرنس جو کہ لاہور میں1974 میںمنعقد ہوئی تھی۔اس کانفرنس میں تقریباًتمام اسلامی ممالک نے شرکت کی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کانفرنس سے مغربی ممالک نا خوش تھے۔کانفرنس کے ایک سال کے بعد سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا الزام لگا کر پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ انہوں نے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنا دیا تھا اور اسی وجہ سے بھارت پاکستان پر آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھ سکا۔ان دو اچھے کاموں کی سزا تھی ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا جو ایک ڈکٹیٹر ضیاالحق کی ہاتھوں انجام پائی۔
بعد ازاںپاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اوپر نیچے ہوتے رہے مگر زیادہ تر یہ تعلقات مثبت ہی رہے۔اب ایک نظر ڈالتے ہیں موجودہ حالات پر۔
پرنس محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی تاریخ 16 فروری مقرر کی گئی تھی۔ پوری قوم ان کی آمد کی منتظر تھی مگر اس کے بعد پتہ چلا کہ وہ سولہ فروری کو نہیں آ رہے جس پر قوم میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ پرنس کا دورہ بڑی اہمیت رکھتا تھا۔خیر پرنس سلمان سترہ فروری کو پاکستان آئے اور پاکستانی حکومت کے اعلان کے مطابق وہ دو روزہ دورے پر اآئے مگر اگلے ہی دن یعنی 24 گھنٹے میں ان کی واپسی بھی ہو گئی۔
پاکستانی حکومت کے مطابق پرنس سلمان ایک بہت بڑا پیکیج لائے ہیں جو کہ تقریباً12 ارب ڈالرزکا ہے۔عوام میں خوشی کی لہر دور گئی ہے کہ اب پاکستان میں خوشحالی آئے گی اور پاکستان کو تاریکی سے نکال کر روشن کر دیا جائے گا۔
پرنس کا دورہ موجودہ حکومت کا ایک اچھا کارنامہ ہے اور ہم اس کو خوش آئند قرار دے سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی اپیل پر پرنس سلمان نے سعودی عرب میں قید دو ہزار سے زائدپاکستانی قیدیوں کی رہائی کا بھی اعلان کیا ہے۔ان میں سے بیشتر مزدور پیشے ہیں اور زیادہ تر ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس اپنی ضمانت کے لئے زر ضمانت موجود نہیں یا کوئی ان کا ضمانتی نہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کی اس کاوش کو ملک بھر میں سراہا گیا ہے اب سعودی پرنس سلمان اپنا دورہ مکمل کر کے واپس جا چکے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو جو پیکیج ملا ہے اس کو استعمال میں کس طرح سے لایا جائیگا۔ کیونکہ اگر اتنا بڑا پیکیج کی ڈیل ہو چکی ہے تو سعودی حکومت کی اس پڑ کڑی نظر ہو گی کہ پاکستان اس کو کس طرح استعمال کر رہا ہے۔
پاکستانی عوام روشن اور نئے پاکستان کے خواب کو پورا ہوتے دیکھنے کے لئے بیتاب ہیں۔موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک عوام کے ساتھ کیا ہوا ؟ایک وعدہ بھی پورہ نہیں کیا بلکہ عوام کو مہنگائی میں دھکیل دیا ہے۔ ڈالر 140 کا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھو چکی ہے اور غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔
موجودہ حکومت نے انتخابات سے پہلے عوام سے جو وعدے کئے تھے اب ان کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔حکومت کو اب یو ٹرن کی سیاست کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ اب وقت ہے کام کرنے کا اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا۔