اسلامی ریاست میں حکومت اور عوام کے باہمی رابطے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جب کہ دنیا کے استکباری اور جبر و آمریت کے نظاموں میں حکومت اور عوام کا رابطہ جنگلی حاکمیت کی طرح ظالم و مظلوم کے رابطے کی مانند ہے۔جس طرح طاقتور درندے کمزور جانوروں کا شکار کرتے ہیں، یا ان کے منہ کا نوالہ چھین لیتے ہیں، یوں ہی ظالم و جابر حکام غریب اور کمزور عوام کا خون چوستے رہتے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی ؑ، مالک اشترکو اپنے سیاسی منشور میں ایک خط میں فرمایا جس میں یہ لکھا ”ریاعا کے ساتھ محبت اور لطف و کرم کو دل سے اپنا شعار بنا لو، ان کے لئے ایسا خونخوار درندہ نہ بن جانا کہ ان کے منہ کا نوالہ چھیننے لگو، ایمانی حکومت و الٰہی حاکمیت اور ملت کا رابطہ محبت، خدمت، ایثار،احسان اور حسن سلوک پر استوار ہوتا ہے۔ حضرت علی ؑ رعایا کے ساتھ اپنے تعلق و رابطے کے متعلق فرماتے ہیں ، بلا شبہ میں نے تمہارے ساتھ نیکی کا برتاو¿ کیا۔ایک اچھے پڑوسی جیساسلوک کیا، اور اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ تمہاری حمایت کی اور ذلت و رسوائی کی زنجیروں سے تمہیں آزاد کرایا۔اس طرح میں نے تمہاری تھوڑی سی نیکی کا شکریہ ادا کیا اور ان بہت سے ناروا سلوکوں سے چشم پوشی کر لی جنہیں میری آنکھوں نے دیکھا اور میرا جسم جن کا گواہ ہے۔
حضرت علی ؑ کے اس فرمان سے عوام کے ساتھ رابطے کی نوعیت کے سلسلہ میں آپ کے سیاسی اصول سے اجمالی طور پر مندرجہ ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک،عوام کی مکمل حمایت ، ہر طرح کے قید و بند سے انہیں آزادی دلانا، ان کی محبتو ں کی قدر کرنااور غلطیوں سے چشم پوشی کرنا۔
حضرت علیؑ نے اپنے مختلف عاملوں کو بھی حدود و قیود کا پابند رکھا، تا کہ کسی کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہ ہو، زکواة کی وصولی پر مقرر اپنے ایک عامل کو تحریر کئے گئے ایک خط میں آپ نے فرمایا ”لوگوں کے ساتھ ناروا برتاو¿ نہ کرنا اور انہیں پریشان نہ کرنا ، ان کی تحقیر و توہین نہ کرنااور اپنے عہدے کی بڑائی کا خیال رکھتے ہوئے ان سے بے رخی نہ برتنا کیونکہ وہ لوگ تمھارے دینی بھائی ہیں اور ایسے مددگار ہیں کہ جو حقوق کی ادائیگی میں مدد دیتے ہیں ۔“
اسلام میں خاص طور پر عوام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ دیگر نظاموں کے بر عکس اسلام کے سیاسی نظام میں عوام کو خواص اوراشراف کے طبقہ سے زیادہ وقعت و اہمیت دی گئی ہے۔ مالک اشتر کے نام تحریرشدہ آ پ کے سیاسی و اجتماعی منشور میںاس اہم نقطہ کی طرف پوری توجہ دی گئی ہے۔
آپ نے فرمایا ”تمہاری نظر میں بہترین اور پسندیدہ طر یقہ کار وہ ہونا چاہیے جوحق کی بنیاد پر بہترین ہو۔ انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کی خوشنودی کے مطابق ہو کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بے اثر اور بے اعتبار بنا دیتی ہے، اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضامندی کے سامنے نظرانداز کی جا سکتی ہے۔رعایا میں خواص سے زیادہ کوئی ایسا نہیں جو خوشحالی کے دور میں حکومت پر سب سے بڑا بوجھ اور مشکلات میں مدد سے کترانے والا انصاف سے دور بھاگنے والا اپنی ضروریات کے سلسلے میں سب سے زیادہ توقع رکھنے والا نہ ہو، نیز یہ کہ خواص ہی ہیں جو بخشش و عطا پر بہت کم شکر گذار،محروم کئے جانے پر بہت کم عذر سننے والے اور زمانہ کی بلاو¿ں اور مصیبتوں میں بہت کم صبر کرنے والے ہوتے ہیں ۔ بلا شبہ دین کا مضبوط سہارا مسلمانوں کی قوت اور دشمنوں کے مقابلہ میں سپر عوام ہیں ۔لہٰذا تمہاری توجہ ان کی طرف اور تمہاری محبت ان کے ساتھ ہونی چاہئیے ۔
رعایا اور عوام کو قدر کی نگاہوں سے دیکھنا حکمت سے خالی نہیں ہے، اس بات کے دلائل امیرالمومنین حضرت علی ؑ کے اسی مکتوب میں بڑی بلاغت اور جامعیت کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں جنکا خلاصہ اس طرح ہے۔ خواص بہت شاہ خرچ اور اسراف کرنے والے ہیں جبکہ عوام قناعت پسند، کم خرچ اور کم توقع رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ خوا ص، حکومت کی مشکلات میں بہت کم مدد گار ثابت ہوتے ہیں،جبکہ عوام سخت مواقع پر حکومت کے یار ومدد گار بن جاتے ہیں۔
خواص عدل و انصاف تحمل نہیں کر سکتے ، اس سے گریز کرتے ہیں جب کہ عوام عدل و انصاف کے پیاسے ہوتے ہیں ۔
خواص بہتچاپلوس اور لالچی ہوتے ہیں جب کہ عوام میں اپنی درخواست پر اسرار ، چاپلوسی ، یا رونے گڑگڑانے کا اندازہ نہیں پایا جاتا۔
خواص کو جس قدر بھی نوازا جائے کم شکر گذار ہوتے ہیں جب کہ عوام پر اگر تھوڑی سی عنایت و نوازش بھی کی جائے تو وہ شکر گذاری اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
خواص کے یہاں مشکلات میں صبروتحمل نہیں پایا جاتا جب کہ عوام صابر، تحمل اور مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہیں ۔ خواص کو اگر بخشش و عطا کے ذریعے نہ نوازا جائے تو وہ کوئی عذر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جبکہ عوام سہل انگاری اور در گذر سے کال لیتے ہیںاور عذر قبول کر لیتے ہیں ۔عوام ہمیشہ دین کے پشت پناہ ،امت اسلامیہ کے ناصر و یاور اور دشمنوں کے مقابلے میں سپر طاقت بن جاتے ہیں لہٰذا ُن کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے انہیں ان کے بنیادی حقوق دلا کراور ان کی خبر گیری کے ذریعے اس عوامی طاقت کو محفوظ رکھنا چاہیے۔
حکومت کو ہر طبقہ کے ساتھ مناسب طرز عمل اور سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور اس کے ذمہ دار افراد عوام سے دور اور الگ تھلگ نہ رہیں اور اپنے گرد کوئی ایسا حصار قائم نہ ہونے دیں کہ عوام ان تک اپنی بات نہ پہنچا سکیں۔ حکومت اور عوام کے درمیان براہ راست تعلق و ارتباط سے بڑے مفید اثرات و نتائج بر امد ہوتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی ؑنے اپنے ایک خط میں مکہ میں متعین اپنے گورنر کو لکھا تھا؛”تم لوگوں کے لئے حج کی ادائیگی کا سرو سامان کرو اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاو¿، ظہر و عصر کی نماز کے بعد لوگوں کے ساتھ بیٹھو اور ان کے دینی مسائل کا جواب دو ۔بے علم افراد کو تعلیم دو اور صاحبان علم سے بحث و گفتگو کرو، دیکھو تمہارے اور عوام کے درمیان تمہاری زبان کے علاوہ نہ کوئی اور نمائندہ ہو اور نہ تمہارے چہرے کے علاوہ کوئی اور دربان اور کسی صاحب حاجت سے اپنا چہرہ نہ چھپاو¿کیونکہ اگر اہل حاجت پہلی مرتبہ تمہارے دروازے سے محروم واپس ہوئے تو بعد میں ان کی حاجت روائی کے بعدبھی تمہاری کوئی تعریف نہ کی جائے گی۔ اصل میں حکومتوں کے حالات اور عوام و رعایا کے معاملات میں خرابی کا اہم سبب یہ ہوتا ہے کہ حکام اور مملکت کے ذمہ دار افراد حقائق و واقعات سے یا تو خود واقف ہونا نہیں چاہتے، یا وہ ان کے بارے میں کچھ جان ہی نہیں پاتے، گنتی کے چند حاشیہ نشین ،دربار اور قریب رہنے والے افراد حکام کے گرد حلقہ جمائے ریشم کے کیڑے کی مانند انہیں اپنے گھیرے میں لئے رہتے ہیں۔ان کی خوشنودی کے لئے انہیں جھوٹے اطمینان دلاتے رہتے ہیں بحرانوں کا ذکر ہی نہیں کرتے کہ کہیں حکام کے مزاج پر اس کا برا اثر نہ ہو ۔
یہ وہی نکتہ ہے جس کی طرف جناب امیرالمومنین حضرت علی ؑ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ”حکام کو ایسے حصاروں سے بحرحال باہر نکلنا چاہئیے ۔ نیز انہیں اچھے واسطوں ، ذریعوں اور پردوں کو درمیان سے ہٹا کر رعایا کے درمیان آنا چاہئیے ۔ حکومتی کارندوں کے ذریعے حاصل ہونیوالے اطلاعات اور اعداد و شمار کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہئیے اور حالات سے براہ راست آگاہی حاصل کرنی چاہئیے ۔
عوام کے رابطے کے ایک اور نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی ؑ نے ایک موقع پر فرمایا :
”اور اگر عوام یہ گمان کرنے لگیں کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے تو اپنا عذر ان کے سامنے واضح کرو اور صاف بات کرتے ہوئے ان کی بدگمانی دور کرو کیونکہ حقیقتاً اس کام میں تمہارے نفس کےلئے ریاضت اور سختی ہے ۔“
حکام کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اگر کوئی قابل قبول عذر ہو تو عوام کے سامنے بیان کر دیں کیونکہ عوام کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی یہ گھتیاں ایک نہ ایک دن سورش اور بغاوت کی شکل میں ظاہر ہو کر رہتی ہیں اور ملک و حکومت کو مشکلات سے دو چارکرنے کا موجب بن جاتی ہیں ۔