ریاست مدینہ!!عمران خان کپتان نہیں وزیر اعظم بنیں
خصوصی مضمون ۔۔۔۔آیت اللہ ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی(نیویارک )
ہمارے کپتان نے ملک کو چلانے کا فیصلہ کرکٹ کی گیم کی طرح کر لیا ہے۔حالانکہ کھیل تماشوں میں مقابلہ کی نوعیت اور ہوتی ہے اور مملکت چلانے میں اصول و ضوابط اور ہوتے ہیں۔
کپتان نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اپنی حکومت کو ہمارے آقا کریمﷺ کی ریاست سے تشبیہ دی جو کہ اہل منطق کے نزدیک قیاس بالفارق ہے۔
کجا وہ ریاست جہاں فرشتے دربان بن کر آئیں اور کہاں انگریز کے نظام کی حکومت جہاں اسلامی قوانین کے پرخچے اڑائے جائیں۔
حضور کریمﷺ ریاست مدینہ میں یہود و نصاریٰ کو بھی برداشت کرتے تھے جبکہ کپتان اور ان کی ٹیم مسلمانوں کو بھی برداشت نہیں کرتی۔کپتان کی زندگی میں جو یو ٹرن آیا۔ اس سے ان کے عاشق رسول ﷺہونے میں کوئی شک نہیں۔شاید دنیا کا پہلا سربراہ مملکت ہے جس نے جوتا نہ پہن کر سرزمین پیغمبر ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا۔
ذاتی طور پر نہ وہ لٹیرے ہیں ، بدعنوان ،نہ راشی، نہ ڈرپورک، نہ لالچی۔تاہم ملک کے وزیر اعظم میں وجاہت ہوتی ہے وہ ان میں نا پید ہے۔70 سالہ وزیر اعظم 17 سالہ کپتان لگ رہا ہے۔
اولا ً! تو کپتان کو اپنی ریاست کو ریاست مدینہ کا نام نہیں دینا چاہئے تھا۔اس لئے کہ ریاست مدینہ میں اپنوں ، پرائیوں کی عزتیں محفوظ تھیں۔امن بحال تھا۔بے روزگاری ناپید تھی۔ریاست مدینہ کے والی کا رہن سہن ایک عام انسان کی طرح تھا۔
ثانیاً ! بچوں کی طرح چہرے پر ہاتھ مار کر انتقام لینے کا رواج ریاست مدینہ میں ناپید تھا۔اس لئے کہ ریاست مدینہ عفو و درگرز پر قائم تھی انتقام پروری پر نہیں۔
ثالثاً ! ریاست مدینہ کے کوتوال شہر کو اغوا کر کے جبری دستخطوں سے مخالفوں کو زیر حراست نہیں لیا جاتا تھا۔
رابعاً ! کپتان کا اپنا حلیہ ان کی اپنی کابینہ کے حلیے ریاست مدینہ کے حاکم یا حاکم کے پیروکاروں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔
خامساً ! نیب طرز کی کوئی عدالت ریاست مدینہ میں اپنی مخالفوں کو نیچا دکھانے میں کوشاں نہیں تھی۔
سادساً۔والی ریاست مدینہ اپنے مخالفین کی بیٹیوں کا احترام کرتے تھے۔ان پر طعن و تشنیع نہیں کرتے تھے۔انہیں برے القاب سے نہیں پکارتے تھے۔انہیں اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے۔جیسا کہ حاتم طائی کی بیٹی آقا ﷺکے دربار میں پیش کی گئی تو آپ ﷺنے اپنی عبائے مبارک دی کہ دختر حاتم کا سر ڈھکا جائے۔
سابعاً! ًآقا کریمﷺ نے دوسروں کی خامیوں کے باوجود کسی کو مشورے سے محروم نہیں رکھا۔اس لئے کہ مشورہ حکم قرآنی ہے۔اللہ کابینہ کو خوشامد کی بجائے مشورہ کی توفیق دے۔
ثامناً !رسول اسلام ﷺ نے کبھی خبر کی ترسیل یا رپورٹنگ پر کوئی پابندی کبھی نہیں لگائی۔سینسر شب کا رواج نہیں تھا۔کسی بھی رپورٹر کو رپوٹنگ کی وجہ سے پابند سلاسل نہیں کیا گیا۔ جبکہ پاکستان میں مخالف صحافیوں کی تذلیل کا رواج ہمیشہ سے موجود ہے۔
تاسعاً! والی مدینہ یا ان کے کسی ساتھی نے کسی انسان کو گیڈر نہیں کہا۔نہ ہی وہ اپنے مخالفین کے لئے کوئی ایسی زبان استعمال کرتے تھے جو کپتان اورن کی ٹیم کا وطیرہ حیات بن چکا ہے۔
عاشراً!۔والی مدینہ اپنی ریاست کے اداروں بشمول انتظامیہ و عدلیہ کو انتقام پروری کے لئے استعمال نہیں کرنے دیتے تھے۔
ان دس نکات کے بیان کرنے کے بعد میری کپتان سے گزارش ہے کہ ریاست مدینہ کو بدنام نہ کریں بلکہ اس کا نام ریاست نیاز ی رکھ دیں۔اس لئے کہ ریاست مدینہ میں اسلامی آئین،مذہبی دستور و منشور، حدود وتعزیرات ، قصاص و دیت کا ایسا عدالتی نظام نافذ تھا کہ قاتل ، ڈاکو، چور، ناموس کا مجرم ،لٹیرا قانون سے بچ نہیں سکتا تھا۔
والی مدینہ ! کی ریاست میں کوئی پیٹ بھوکا نہیں سوتا تھا۔کوئی بے لباس نہ ہوتا تھا۔اول تو کوئی بے روزگار نہ تھا اور اگر کوئی بے روزگار ہوتا بھی تو اسے بیت المال سے خرچ دیا جاتا تھا۔بیت المال کے نظام کو راستوں کو کشادہ کرنے ، مساجد کی تعمیر اور لوگوں کی رفاہ عام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔نہ ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے۔ نہ اپنے مخالفین پر منشیات کے جعلی کیس بنتے تھے۔نہ رعب و دبدہ اور دھونس سے مخالف کو دبایا جاتا تھا۔غیر مسلم بھی خراج دے کر محفوظ تھے۔جبکہ کہ ا?پ کے یہاں مسلم بھی خراج دینے کے باوجود محفوظ نہیں ہیں۔
جناب کپتان صاحب! جو غلطیاں آپ کے پیش رو حکمرانوں نے کیں ان کو نہ دہرائیے۔تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے تو معاشی ، مذہبی ، دینی ،سماجی تبدیلیاں کر کے دکھائیے۔الزام تراشیوں کے جواب الزام تراشیوں سے نہیں ہوتے۔تخریب کا جواب تخریب سے نہیں ہوتا۔
ٹرمپ کی شکست سے سبق سیکھئے۔ خود سے پیش رو حکمرانوں کے زوال سے عبرت حاصل کیجیئے۔ اللہ روز روز موقع نہیں دیتا۔سابقہ حکمرانوں کی نالائقیوں کی وجہ سے آپ کو بائی چانس موقع ملا ہے۔
ملک بائی چانس ٹھیک نہیں ہوگا ،بائی چوائس ٹھیک ہوگا۔اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے اپنے اقتداد کے باقی ماندہ سالوں میں انگریزوں کے فرسودہ نظام ، ایف آئی آر کے کذب بیانی پر مشتمل طریقہ کار، پولیس کی بدعنوانیوں اور رشوت خوریوں ، محکمہ مال کی نا انصافیوں ، نیب کی من مانیوں ، لٹتی ناموسوں،تاراج ہوتی ہوئی عزتوں،قربان ہونے والی وجاہتوں،غربت و افلاس ، بدامنی اور دہشت گردی،فکری انحطاط،مذہبی جنون کے باعث قتل و غارت، لاقانونیت،ہم جنس پرستی ،لوٹ کھسوٹ،ذخیرہ اندوزی،جنسی بے راہ روی،جعل سازی و مکاری کا سدباب کیجئے۔نواز شریف فوبیا سے ہٹ کر سڑکوں کی تعمیر ، اداروں کی جانچ پڑتال، گینگسٹر کا مواخذہ،اغوا برائے تاوان کی گرفت اور عزت و ناموس کے اغواو¿ں کی روک تھام پر توجہ دیجئے۔
مجھے امید ہے میری ان چند گزارشات پر جناب کپتان اور ان کی ٹیم توجہ دے گی۔اور سابقہ لٹیروں کی لوٹ مار کی تشہیر کے ساتھ ساتھ نظام کی تطہیر پر بھی عمل ہوگا۔جناب کپتان صاحب کو ان کی پوری کابینہ اور 15 تنخواہ دار مشیر وہ مشورے نہیں دے سکیں گے جو مجھ فقیر نے کالم ہذٰا میں لکھ دئیے ہیں۔
اللہ کریم والی ریاست مدینہ آقائے نامدارﷺ کے صدقے میں کپتان کو مثبت انداز میں کام کرنے کی توفیق نصیب کرے اور اللہ سمجھ دے کہ اب وہ کرکٹ کے کپتان نہیں ملک کے وزیر اعظم ہیں۔
Allama Sakhawat Hussain Sandralvi New York