" "
پاکستان

امریکہ میں تحریک انصاف کے قائدین، اوورسیز پاکستانیوں کے پاکستان میں کردار کے حق میں کھل کر سامنے آگئے

تحریک انصاف یو ایس اے کے جانی بشیر، سیم ابرار خان،خورشید احمد بھلی، وقار خان ،رانا سعادت اور ضیاءحسن سے جمال خان کی خصوصی بات چیت

پاکستان کے میڈیا اپوزیشن سول سوسائٹی اور دوسرے تمام حلقوں کو اس بات کو سمجھنا چائیے کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے ملک کے اندر
ہم اگر ملک کےلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو خدارا ہماری نیتوں پر شک نہ کیا جائے ،ظفر مرزا تانیہ ادرس ،معید یوسف جیسے لوگوں کے ساتھ غداروں والا سلوک کرکے اوورسیز پاکستانیوں کے جذبات سے مت کھیلیں
اگر ملکی مفادات کے لئے ایک شہریت رکھنا پڑی تو ہم پاکستان کی شہریت کو مقدم رکھیں گے،ہمارے ساتھ امتیازی سلوک بند ہونا چائیے۔پاکستان کی اصل “کریم” بیرون ممالک میں مقیم ہیں
اوورسیز پاکستانیوں کی قدر کریں، ہم پاکستان کے سچے سپاہی ہیں ہمارے ساتھ غداروں والا سلوک نہیںہونا چاہئیے ، ہماے بھیجے ہوئے پیسے حلال مگر نمائندگی حرام ہے !!!!!!!
ظفر مرزا اور تانیہ ادرس کو رسوا کرنا کہاں کا انصاف اور دانشمندی ہے !!!! خان صاحب کے مشیروں کی نظریں منتخب نمائندوں کے حلقوں پر تو نہیں،ہمیں پاکستان کےلئے کچھ کرنے کی لگن ہے

 

واشنگٹن ڈی سی ( رپورٹ: جمال خان ) گذشتہ کچھ ماہ سے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل کچھ مشیران کے بارے میں اپوزیشن اور میڈیا کی جانب سے مسلسل یہ الزامات سامنے آرہے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس نہ صرف دوہری شہریت ہے بلکہ ان کی کابینہ میں موجودگی پاکستان کے مفادات کو بھی ضرب پہنچا رہی ہے ۔ خاص طور پر قومی سلامتی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے مشیر جو امریکہ میں مقیم تھے، ان پر اس حوالے سے کافی سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ وہ امریکی حلقوں میں بھی کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کے دو مشیروں کی طرف سے استعفیٰ کی خبروں نے بھی بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی پریشانیوں میں خاصہ اضافہ کیا ہے جو کہ پہلے ہی اپنے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک کے شکایتیں کررہے ہیں۔
اس حوالے سے ہم نے کوشش کی ہے کہ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں سے اس معاملے کے حوالے سے رائے لی جائے کہ وہ اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اور چونکہ پاکستان تحریک انصاف ہی وہ پارٹی جو اوورسیز پاکستانیوں کے لئے دوہری شہریت اور ووٹ کے حق کے لئے عدالتوں تک کے دروازے پر جاچکی ہے، اس لئے اس مضمون میں بھی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہی رائے پر مبنی رپورٹ پیش کی جارہی ہے ۔
ہمارا سوال یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں موجود ان کے کچھ مشیروں کی دوہری شہریت کے حوالے سے نہ صرف اپوزیشن اور میڈیا بلکہ اپنی ہی پارٹی کے کچھ منتخب نمائندوں کی جانب سے نہ صرف سنگین سوالات اٹھائے گئے بلکہ ان کی حب الوطنی پر بھی شک کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ لوگ دوسرے ممالک کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی جو پاکستان میں جاکر پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ، چاہےے وہ کسی بھی میدان میں ہو تو پھر جب وہ ایسی خبریں اور واقعات دیکھتے سنتے ہیں تو ان کے کیا احساسات ہوتے ہیں اور وہ کس حد تک مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف یو ایس اے کے پریذیڈنٹ جانی بشیرنے کہا کہ اگر آپ کے اپنے گھر والے صحیح کام نہیں کرتے تو آپ کو باہرسے مدد چائیے ہوتی ہے ۔آپ کو سمجھنا چائیے کہ باہر والے بھی آپ کے اپنے گھر والے ہی ہیں۔ہم اوورسیز پاکستانی بھی آپ کے ہی خاندان کا حصہ ہیں کوئی غیر نہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بیرون ممالک سے جب زرمبادلہ جائے تو سب ٹھیک ہے مگر جب ہم لوگ دوہری شہریت اور الیکشن میں حصہ لینے کی بات کریں تو آپ کے رویے تبدیل ہوجائیں۔ہمارے پیسے تو حلال ہیں مگر ہماری نمائندگی حرام۔اگر الیکشن لڑنے کا حق ملے تو مشیروں کی ضرورت ھی نہ رہے۔
پاکستان تحریک انصاف یو ایس اے کے جنرل سیکرٹری سیم ابرار خان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 72 سالوں سے کون لوگ پارلیمنٹ پر قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں؟یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردی ہیں۔ہم لوگ دیار غیر اپنا ملک چھوڑ کے آتے ہیں۔یہاں کے سسٹم میں رہ کر دن رات محنت سا اپنا مقام بناتے ہیں اور پھر ہر وقت اپنے مادر وطن کے حالات پر خون کے آنسوں بہاتے ہیں اور اس کی بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کی تگ و دو میں دن رات ایک کردیتے ہیں۔ہم پاکستان کے سچے سپاہی ہیں ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمیں اس “جرم” کی سزا غداری کا لقب لگا کر دی جائے۔میڈیا ،اپوزیشن، سول سوسائٹی ہمارے حقوق کی جنگ لڑے نہ کہ ہمارے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرنے والوں کا ساتھ دے۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ لوگوں کو پڑھی لکھی قیادت چائیے یا سکولوں میں بھینسیں باندھنے والی سوچ۔
پاکستان تحریک انصاف یو ایس اے کے جنرل سیکرٹری یوتھخورشید احمد بھلی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے ساتھ سراسر امتیازی سلوک ہے۔پاکستان کی جو اصل کریم ہے، وہ بیرون ممالک مقیم ہیں۔لوگوں کو اس بات کو سمجھنا چائیے کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانی پاکستان میں رہنے والوں سے بھی زیادہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ہمیں بھی اپنے ملک سے اتنا ہی پیار ومحبت ہے اور ہم لوگ بھی اس ملک کے لئے بہت فکرمند ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے بہترین دماغ اور ان کی قابلیت سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ان کے لئے ایسی سہل پالیسیاں بنائی جائیں جن سے وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرکے ملک کی خدمت کرسکیں ان کے لئے اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں ہونی چاہیئے۔خورشید احمد بھلی نے مزید کہا کہ ہمیں یقینًا بہت تکلیف ہوتی ھے جب ہم ظفر مرزا اور تانیہ ادرس سمیت دورے مشیروں کے بارے میں منفی پروپیگنڈا ہوتے دیکھتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف میری لینڈ کے جنرل سیکرٹری وقار خان کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے یقینا اس طرح کی باتیں انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں کہ جب عدالت اوورسیز پاکستانیوں کی دوہری شہریت کا کیس سنتی ہیں تو مشاہد حسین سید جیسا شخص عدالت میں جاکر اپنی پارٹی کا دفاع کرنے کےلئے عدالت کے سامنے اس کو نامنظور کرنے کے دلائل گھڑ لیتا ہے۔ٹاک شوز میں بیٹھ کر یہ لوگ اوورسیز پاکستانیوں کی دوہری شہریت کی حمایت کرتے ہیں مگر پھر راستے میں کانٹے بچھانے میں بھی یہ لوگ آگے آگے ہوتے ہیں۔دوسرا اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کو اس چیز سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہونا چائیے کہ خان صاحب کے مشیروں کی نظریں ان کے حلقوں پر ہیں۔ان کا کام صرف مشاورت کرنا اور اپنی اپنی فیلڈ کے حوالے سے اپنی ماہرانہ رائے اور رپورٹ پیش کرنا ہے ۔
فرحان چودھری، سینئر ایڈوائزر کنکٹی کٹ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ساری عمر باہر گزاری ہے، وہ اپنا ایک وژن لیکر پاکستان گئے تھے۔وہ یورپ ،امریکہ کے سسٹم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کا کیا مقام ہوتا ہے؟ ملکی ترقی میں اور اس ہی فارمولے کو وہ پاکستان میں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔اب آپ دیکھیں کہ پاکستان میں جو ممبر پارلیمنٹ ہیں ،ان میں سے کچھ ایسے ہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں جن کو ایم بی اے کا مطلب بھی نہیں پتا ،وہ صرف سارا دن ڈیسک بجاتے رہتے ہیں انہیں بل تک پڑھنا نہیں آتا۔انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے بیرون ممالک سے اپنے اپنے شعبوں سے متعلق انتہائی قابل اور زرخیز دماغ اپنی کابینہ میں شامل کئے ہیں۔یہ لوگ کوئی عام لوگ نہیں ہیں۔فرحان چوہدری نے کہا کہ ظفر مرزا دبلیو ایچ او میں انتہائی اہم عہدے پر تھے۔ہم نے اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ تانیہ ادریس گوگل کی پرکشش جاب چھوڑ کے آئی تھیں ۔میڈیا کا کام یہ نہیں کہ آپ ایسے لوگوں پر بغیر کسی ثبوت کے اتنے بڑے الزامات لگاکر انہیں رسوا کریں۔اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ھے تو پڑھے لکھے اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کو خدارا ملک کی خدمت کرنے دیں ناکہ ان پر غداری کے لیبل چسپاں کریں۔
پاکستان تحریک انصاف واشنگٹن کے پریذیڈنٹ رانا سعادت نے کہا کہ ہم اپنی دن رات کی کمائی کا ایک بڑا حصہ زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان بھجواتے ہیں۔دوسری طرف ہم اگر پاکستان کے لئے کچھ کرنا چائیں تو ہمارے اوپر سوالات اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ہم نے اپنی خوشی سے پاکستان نہیں چھوڑا لیکن جب ہمیں وہاں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملے تو حالت مجبوری میں اپنا پیارا وطن چھوڑنا پڑا ۔اب اگر ہم اس ملک کےلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہر طرح کے سوالات اپوزیشن میڈیا اور دوسرے حلقوں سے آنا شروع ہوجاتے ہیں جو کہ ہمارے لئے انتہائی تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف واشنگٹن کے فنانس سیکرٹری ضیاءحسن کا کہنا تھا کہ ہمارے میڈیا کو جعلی ڈگریوں والے دکھائی نہیں دیتے مگر بیرون ممالک پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز پروفیسر اور اپنی اپنی فیلڈ کے ماہرین کے پاسپورٹ اور گرین کارڈز دیکھ کر پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔جعلی ڈگریوں والے اونچے اور اعلی عہدوں پر جبکہ پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے دن رات سوچنے والوں کی دوہری شہریت پر سوال پر سوال
میڈیا کو شرم آنی چاہیے، بلا سوچے سمجھے اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی پر شک کرنے پر۔

Role of Overseas Pakistanis and PTI USA

 

Related Articles

Back to top button