ویسے تو بھارت 1947ئ میں تقسیم برصغیر کے فوراًبعد سے پاکستان کے خلاف صوتی محاذ پر سرگرم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنے الیکٹرانک میڈیا نیٹ ورک کا وسیع جال بچھایا ہے لیکن وزیراعظم نریندرا مودی کی پہلی میعاد کے اواخر میں بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ تیز کردیا تھا جسے انتخابات جیتنے کا ہتھکنڈہ سمجھ کر پاکستان میں نظر انداز کر دیاگیا۔ تاہم دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بدنام زمانہ” ہندتوا“ ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہوئے جہاں بالاکوٹ میں جارحیت کا ارتکاب کیا وہیں انہوں نے سفارتی و نشریاتی محاذوںکو پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔
گزشتہ سال5اگست کو نریندرا مودی نے کشمیر سے متعلق نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ اپنے ہی ملک کے آئین کے آرٹیکل 370 جس کے تحت ریاست کو بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے خصوصی حیثیت دی گئی تھی، کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ قراردے دیا اور اس طرح بھارت کی سرحد کو توسیع دے کر ایک طرف آزاد کشمیر اور دوسری طرف پاکستان کی سرحد سے ملادیا اور اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارت کا دعویٰ کردیا۔
دوسری طرف پاکستان نے جس کامسئلہ کشمیر کے فریق کی حیثیت سے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ خطوں یعنی جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان پر دعویٰ ہے ، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے کسی بھی جارحیت سے گریز کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے پرامن حل پر مبنی اپنے موقف کو دہرایااور متنبہ کیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی حامل دوعلاقائی قوتوں کے درمیان جو اتفاق سے ہمسایہ بھی ہیں، محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ جنگ خطے کی حدود سے باہر نکل کردوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور خطے کے عوام کی اکثریت جو پہلے ہی بدترین پسماندگی کا شکار ہے،مزید مصائب کا شکار ہوجائے گی۔
بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کی امن کی خواہش اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کو پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا اورجموں و کشمیر کوتین حصوں میں تقسیم کرکے اس مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کیلئے سکونتی سرٹیفیکیٹ سے متعلق قانون میں ترمیم سمیت متعدداقدامات اٹھائے ۔ اس کیلئے بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین نیزاقوام متحدہ میں اپنے ہی بانیوں کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی بھی پاسداری نہیں کی بلکہ فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے جو کبھی نازی ہٹلر کاخاصہ تھے، کشمیریوں کے ساتھ ساتھ خود بھارت میںمقیم مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیانیز عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے بھارت نے نشریاتی محاذ پرپاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ بھی مزید تیز کردیا ۔
اب بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کومزید آشکار کرتے ہوئے اور نشریاتی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے سرکاری ٹیلی وژن دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو پر خبرنامے کے بعد موسم کی خبروں میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو بھی شامل کرلیا ہے اور ان علاقوں کے موسم کی پیشگوئی بھی اسی طرح کی جارہی ہے جیسے بھارت کے دوسرے خطوں کے موسم کا احوال بتایا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی بھارت کے محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر شمال مغربی سب ڈویژن کے تحت مظفرآباد، سکردو اور وادی نیلم کے موسم کی روزانہ خبر دی جارہی ہے۔
بھارت کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے ایسا کیوں کیاگیا؟اس کااندازہ بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت نیزدیگر کارپردازان کے بیانات اور دھمکیوںسے بخوبی ہوجاتا ہے۔مثلاًبھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ ”پاکستان کے زیرانتظام کشمیر(آزاد کشمیر)بھارت کی ملکیت ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ایک دن یہ باضابطہ طور پر بھارت کاحصہ بن جائے گا۔ اسی طرح بھارت کے محکمہ موسمیات کے سربراہ مرتونجے موہاپاترا (Mrutyunjay Mohapatra)کا کہنا ہے کہ ©ہم موسم کی خبروں میں گلگت بلتستان اور مظفرآباد کا ذکر کررہے ہیں کیونکہ یہ ہمارے دیش کا حصہ ہیں۔
ؓبھارتی روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بعض سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے انکشاف کیا کہ پاکستان کے زیرانتظام علاقوں کوبھارت کے موسم کی خبروں میں شامل کرنے کا شاطرانہ منصوبہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال کے شیطانی ذہن کی اختراع تھی اوراس سلسلے میں ایک باضابطہ تجویز تین مہینے پہلے تیار کی گئی تھی۔ اس تجویز کو قومی سلامتی کے نائب مشیر کے دفتر سے خارجہ اور داخلہ سیکرٹریوں کے پاس بھیجا گیا اور اسے انٹیلی جنس بیورو اور بھارت کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارےResearch & Analaysis Wing (RAW) کے پاس بھی بھیجا گیا، اس مکروہ تجویز کی حتمی منظوری تقریباً تین ہفتے قبل دی گئی اور تقریباً ایک ہفتے کی فرضی مشق کے بعداسے سرکاری ٹیلی وژن دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کے خبرناموں کا باقاعدہ حصہ بنانے کے علاوہ بھارت کے محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر نمایاں طور پر شامل کرلیا گیا۔
ہندوستان ٹائمزنے ایک اعلیٰ بھارتی اہلکار کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی ہے کہ بھارت پاکستان اور اس کے اتحادیوں کو واضح طور پر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اسلام آبادنے جموں و کشمیر کے 86ہزار مربع کلومیٹرکے رقبے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کررکھا ہے۔
راقم کوبعض تجزیہ کاروںکے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ کشمیر سے متعلق بھارت کے ان اقدامات کا تعلق کورونا کی صورتحال سے ہے اور یہ اقدامات کورونا کی مشکل صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔تجزیہ کاروں کے اس خیال سے اس لئے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ اقدامات عارضی نوعیت کے نہیں نیز یہ کہ یہ محض بھارتی رہنماﺅں کے بیانات اورسرکاری ذرائع ابلاغ پرموسم کی خبروں تک محدود نہیں بلکہ بھارت گزشتہ سال 5اگست سے اپنے شیطانی ایجنڈے پر عملدرآمد بھی کررہا ہے(اب بھارت نے اپنے شیطانی ایجنڈے کے تحت نیپال میں سڑک کی تعمیر جبکہ لداخ میں چین کے ساتھ بھی چھیڑخانی شروع کردی ہے اور اب گزشتہ سال فروری میں جس طرح پاکستان سے تھپڑ کھانے کے بعد سرخ گال سہلاتا رہا ، اب چین سے سینہ کوبی کرتا ہوا بھاگا ہے) ۔
اس صورتحا ل میںجبکہ بھارت گزشتہ سال 5اگست سے اپنی حدود کو پاکستان اورآزاد کشمیرکی سرحدوں تک بڑھا چکا ہے اورآئے دن لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری کی خلاف ورزی کر رہاہے،پاکستان کوابلاغ عامہ کے محاذ پر اپنی پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان کے محکمہ موسمیات(جو شروع سے خبر کا ایک اہم ذریعہ رہاہے) کی ویب سائٹ پر صرف اسلام آباد، چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور گلگت کا درجہ حرارت دیا جارہا ہے جبکہ اس میں مظفرآباد اور میرپور کے ساتھ ساتھ سری نگر ، جموں، کارگل اور لہہ کے درجہ حرارت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی واضح طور پر درج ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت یہ علاقے متنازعہ ہیں اور بھارت نے ان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی سلسلہ ریڈیوپاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے خبرناموں اور ان کی ویب سائٹ پر بھی شروع کرنا چاہیے بلکہ اگر ممکن ہو توبھارتی مقبوضہ حیدرآباد دکن،بھارتی مقبوضہ جوناگڑھ اوربھارتی مقبوضہ مناودر کا درجہ حرارت بھی درج کرنا چاہیے کیونکہ ان علاقوں پر بھی بھارت نے تقسیم ہند کے اصولوں کے برخلاف مختلف حیلے بہانوں سے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔
2016ئ میں اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے راقم نے ریڈیوپاکستان کے حکام کو متعدد تجاویز پیش کی تھیں جن میں سے چند یہ ہیں:
پاکستان کیلئے آزاد کشمیر، پنجاب اور سندھ کے بھارت سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ریڈیوپاکستان کے چھوٹے سٹیشن قائم کرکے بھارت کے پراپیگنڈے کا توڑ کرنا انتہائی ضروری ہے، نیز بلوچستان کے بارے میں بھارت کے پراپیگنڈے کا بھرپور مقابلہ انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔نیزمظفرآباد اور میرپور سٹیشنو ں کا درجہ بڑھاکر ان کی نشریات کا دائرہ (target area)وسیع کیا جائے۔
ریڈیوپاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن اپنے قومی خبرناموں میں کشمیر کو باقاعدگی سے کوریج دیتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک نیز تریپورہ،میگھالیہ، میزورام، منی پور، آسام اور ناگا لینڈمیں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی بھرپور کوریج دی جائے تاکہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں بے بنیاداور جھوٹے پراپیگنڈے کا تدارک ہوسکے۔نیز کشمیر کے بارے میں خبریں ہر نیو ز بلیٹن کا لازمی حصہ ہونی چاہئیں۔اس کے علاوہ قومی خبرناموں میں کشمیری رہنماﺅں کے بیانات اردو اور انگریزی کے علاوہ ان کی اپنی کشمیری زبان میں بھی نشر کیے جائیں۔
ریڈیوپاکستان کی بیرونی سروس سے نشر کی جانے والی خبروں کا آغازحکومتی زعماءکے بیانات کی بجائے کشمیر کے حوالے سے خبروں سے کیا جائے تاکہ بیرونی ممالک میں کشمیر کے بارے میں پاکستان کا موقف نیز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اجاگر ہوسکیں
اسی طرح ریڈیوپاکستان سے پاکستان کی علاقائی زبانوں میں نشرہونے والے خبرناموں میں بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات وواقعات اور بھارت میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو نمایا ں کوریج دی جائے اور اگر ضروری ہو توان خبرناموں کا دورانیہ بڑھایا جائے۔
بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے مظفرآبادریڈیو سٹیشن سے انگریزی، عربی ، فارسی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں میں خبرنامے متعارف کرائے جائیں (1990ئ میں مظفرآباد پوسٹنگ کے دوران راقم کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے وہاں سے انگریزی پروگرام متعارف کرایا گیاتھااور راقم نے اس کے کچھ مسودے بھی لکھے تھے جنہیں پذیرائی حاصل ہوئی تھی)۔
مالی مشکلات کی وجہ سے گزشتہ سال ایک ایسا ریڈیوسٹیشن جو 1948ئ سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مصروف تھا، اچانک بند کرکے اسے اسلام آباد ریڈیو سٹیشن میں ضم کردیاگیا تھا، اس بات سے قطع نظر کہ اس سٹیشن کی بندش کے کیااثرات مرتب ہوئے، مذکورہ ریڈیو سٹیشن کو فی الفور بحال کیا جائے۔
ٓاسی طرح پاکستان براڈکاسٹنگ اکیڈیمی کو بند کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن اس سال فروری میں ”ہندتوا“ اور دوسرے سلگتے مسائل پرہونے والی کامیاب ورکشاپس جن کا سہراریڈیوپاکستان کی سابق ڈائریکٹر جنرل محترمہ ثمینہ وقار، موجودہ ڈائریکٹر جنرل محترمہ امبرین جان اور سابق پرنسپل اکیڈیمی محمد طارق چوہدری کے سر جاتا ہے، کا انعقاد کرکے اکیڈیمی کی افادیت ثابت کردی اور ان ورکشاپس میں مختلف اداروں سے آنے والے شرکاءنے اسے بے حد سراہا۔ان ورکشاپس میں چونکہ ریڈیوپاکستان کے مرکزی شعبہ خبر سے نامزد ہونے والے ایڈیٹرز بوجوہ شرکت نہیں کرسکے تھے، اس لئے ان ایڈیٹرز کیلئے مسئلہ کشمیر پر خصوصی بریفنگز کا اہتما م کیا جائے۔
ان سب تجاویز پرعملدرآمد بظاہر مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ انہیں کیسے ممکن بنایا جاسکتاہے، اس کا نقشہ بھی راقم کے ذہن میں ہے، مختصر یہ کہ ان تجاویز پر عملدرآمد دفاع پاکستان کیلئے کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔
محمود ریاض الدین (پاکستان)
اسلام آباد،فون:
0300 5283060