نیویارک میں قمر علی عباسی کی پانچویں برسی ،ادبی، صحافتی و ثقافتی خدمات کو شاندار خراج تحسین
بشیر قمر کے زیر اہتمام تقریب کی صدارت عابد رافع نے کی جبکہ قونصل جنرل راجہ علی اعجاز اور محترمہ نیلوفر عباسی نے بطور مہمانان خصوصی شرکت کی
قمر علی عباسی مرحوم علم کا سمندر اور ایک مینار بن کر علم کی روشنی کو پھیلانے پر یقین رکھتے تھے، وہ ہمیشہ اپنی لازوال تحریروں کی شکل میں ہم میں موجود رہیں گے ،دنیا کو ان کی علمی خدمات سے آگاہ کیا جائے
ہمایوں فرحت ندیم، وکیل انصاری ، کامل احمر، احتشام رضا کاظمی ،فائق صدیقی ،سلیم احمد ملک ، اعجاز احمد بھٹی، سردرا نصر اللہ ، شیخ توقیر الحق سمیت منتظمین و شرکاءکا قمر عباسی کی خدمات کو خراج تحسین
نیویارک (اردو نیوز ) پاکستان کے معروف صدارتی ایوارڈ یافتہ براڈ کاسٹر ،ادیب ،سفر نامہ نگار ،شاعر اور ریڈیو پاکستان کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر قمر علی عباسی کی پانچویں برسی یہاں عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی ۔ فرینڈز آف قمر علی عباسی کے زیر اہتمام تقریب کی صدارت مرحوم کے قریبی ساتھی و کمیونٹی رہنما عابد رافع نے کی جبکہ قونصل جنرل راجہ علی اعجاز اور محترمہ نیلوفر عباسی نے بطور مہمانان خصوصی شرکت کی ۔تقریب کے اہتمام میں بشیر قمر نے کلیدی کردار ادا کیا۔تقریب میں قمر علی عباسی کی ادبی ، صحافتی و سماجی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنی تحریروں کی شکل میں ہمیشہ موجود رہیں گے اور ان کے چاہنے والے انہیں کبھی فراموش نہیں کرینگے ۔اس موقع پر معروف ثناءخواں امجد حسین نے قمر علی عباسی مرحوم کےلئے خصوصی دعا کروائی ۔
تقریب کا آغاز فضل الحق سید نے تلاوت قران مجید سے کیا جس کے بعد شاعر فرحت ہمایوں ندیم نے قمر عباسی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی شخصیت اور ادبی و سماجی خدمات کے اہم پہلوو¿ں کو اجاگر کیا ۔
قمر علی عباسی کی بیوہ محترمہ نیلوفر عباسی نے کہا کہ قمر علی عباسی کے دوست احباب نے ثابت کیا کہ وہ ان کےلئے زندگی میں عزیز تھے لیکن آج ان کے لئے عزیز تر ہیں ۔یہ محبت اور عقیدت ان کے لئے عظیم سرمائیہ ہے ۔ ان کے دوستوں نے ثابت کیا کہ کتنی ان سے محبت کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ نیلوفر عباسی نے قونصل جنر ل راجہ علی اعجاز، عائشہ اعجاز اور تسنیم بشیر قمر سمیت شرکاءکا شکرئیہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اور میری پوری فیملی آپ کی محبتوں اور چاہتوں کے لئے ہمیشہ مشکور رہے گی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قمر علی عباسی کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا،انہیں صدارتی ایوارڈ سمیت ڈھیروں اعزازات حاصل ہوئے ۔وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میرے رب نے مجھے اتنا نوازا کہ شکر ادا نہیں کرسکتا۔نیلوفر عباسی نے کہا کہ میں نے زندگی بھر ان کے منہ سے کسی کے لئے کوئی بری بات نہیں سنی۔ وہ کہتے تھے کہ بندہ اس وقت جوان ہوتا ہے کہ جب تک جھک کر مٹی اٹھا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی فیملی کے ہر ایک فرد کی بھی مشکور ہوں کہ جنہوں نے میری خدمت کا سلسلہ جاری رکھا ہوئی ہے۔
بشیر قمرنے کہا کہ قمر علی عباسی ایک مشفق شخصیت اور محبت کا لازوال سمندر تھے۔وہ ہمیشہ ہر ایک کی مدد کرتے تھے، رہنمائی کرتے تھے۔عارف افضال عثمانی نے ہماری ان سے پہلی ملاقات کروائی جس کے بعد ہم ان کے ہی ہو کر رہ گئے ۔ دو ہزار تین میں جشن قمر علی عباسی منایا۔ لوگ محبت سے انہیں صدر علی عباسی کہتے تھے۔ وہ کسی ایک آدمی کی جاگیر نہیں تھے بلکہ سب ان کے ساتھ ایک شفقت کا رشتہ محسوس کرتے تھے۔ عالمی اردو تحریک نے جشن میں قمر عباسی میں شرکت کے موقع پر وہ جب نیلو فر بھابھی کے ساتھ تقریب میں شرکت کےلئے آئے تو ان پر پھولوں کی پتیاں نچاور کی گئیں ۔ ایک دوست نے کہا کہ یہ تقریبات کے پہلے دولہا ہیں کہ جو ہر محفل اپنی دولہن کے ساتھ آتے ہیں۔بشیر قمر نے کہا کہ قمر عباسی مزاح کے ساتھ طنز بھی بہت خوب لکھتے تھے۔ وہ بجا طور پر کہتے تھے کہ پاکستان اردو زبان کا سسرال ہے اور اب اردو ہی پاکستان کا گھر ہے اور بجا طور پر ملک کی قومی زبان ہے ۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوستوں کے دوست تھے۔قمر علی عباسی 31مئی 2013کو فوت ہوئے۔ وہ ہمیشہ ہماری یادوں میں رہیں گے۔ آج محفل میں رونق بھی ان کے نام سے ہے۔
تقریب کے صدر عابد رافع نے کہا کہ آج بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ قمر علی عباسی ہم میں نہیں لیکن ان کی شفقت ، محبت اور لا زوال تحریروں کی شکل میں موجودگی کو ہر وقت اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں ۔ان کےلئے ہمیشہ دعا گو رہیں گے ۔
راجہ علی اعجاز نے کہا کہ میری بد قسمتی کہ میری قمر علی عباسی مرحوم سے نیویارک میں ملاقات نہیں ہوئی ۔وہ ایک اچھے ادیب ہی نہیں بلکہ بہت عظیم انسان تھے۔ اوورسیز کمیونٹی کےلئے ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے لئے ان کی خدمات کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے ۔ ادب، ثقافت اور صحافت کے حوالے سے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ۔ان کی اعلیٰ اقدار کو آگے بڑھانا چاہئیے ۔
کامل احمر نے کہا کہ میں قمر عباسی کا دوست نہیں بلکہ چھوٹا بھائی تھا۔وہ ہمیشہ برابری کی سطح پر ہم سے ملتے تھے۔ جو یادوں میں رہتے ہیں ان کو مرحوم لکھنا بہت مشکل تھا۔ میری ان سے شناسائی بہت پرانی تھی۔ وہ کسی بھی موضوع پر برجستہ تقریر کرتے تھے۔ علم کا ایک سمندر تھے۔ ہم ان کے سفر نامے شوق سے پڑھتے او ر ان سے بہت علم حاصل کرتے تھے۔ انہیں اپنے امروہوی ہونے پر بہت فخرتھا۔سفر نامہ نگاری ان کا شوق اور جنون تھا۔ جدید سفرنامہ نگاری میں ان کا ہی نام اوپر رہیگا۔
معروف شاعر اعجاز احمد بھٹی نے قمر علی عباسی کی یاد میں نظم پڑھی۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کا بچپن سے ہی فین تھا۔ امریکہ آکر ان کی بہت قربت نصیب ہوئی۔ ہمیشہ پیار سے بلاتے تھے۔
معروف اینکر پرسن و دانشور فائق صدیقی نے کہا کہ قمر علی عباسی کی تحریروں کا تراجم کروانے چاہئیے۔ان کے نام پر یونیورسٹی اور شعبہ ہائے جات قائم کرنے چاہئیے۔ پاکستان میں اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ قمر علی عباسی کا جذبہ اور وطن سے محبت کو فروغ دینا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے عباسی کو غسل دینے کا شرف حاصل ہوا۔
کمیونٹی رہنما و معروف سیاسی و سماجی شخصیت سردار نصر اللہ نے کہا کہ قمر علی عباسی ایک ہمہ گیر شخصیت تھے، وہ الفاظ کا نگار خانہ تھے، ہمیشہ ایک بھائی اور دوست کی حیثیت سے شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک قلبی رشتہ تھا۔ وہ صبح گھر سے نکلتے ہوئے اللہ کو سجدہ کرکے نکلتے تھے۔یہ بات انہوں نے مجھے بتائی اور میرے دل میں گھر کر گئی ۔انہوں نے مستونگ میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جہاں میرے ماموں نے ان کا ہاتھ بٹایا۔
معروف دانشور کالم نویس وکیل انصاری نے کہا کہ میری قمر عباسی سے پاکستان میں ملاقات ہوئی اس کے بعد وہ جب نیویارک میں آئے تو ہمارے ہی ہوکر رہ گئے۔ ان کے بغیر کوئی تقریب نہیں ہوئی۔ ان کے ساتھ لندن کا یادگار سفر رہا ۔وہاں انہوں نے خطاب کرکے لندن کو مسحور کردیا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ماحول کو صحیح کرنا ہے۔ ان کے انتقال کو پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن وہ آج بھی ہم میں بستے ہیں۔
قمر علی عباسی کے دیرینہ دوست و دانشور احتشام رضا کاظمی نے کہا کہ مرحوم میرے دوست اور بھائی تھے۔ ان سے پہلی ملاقات 1962میں ہوئی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا لا متناہی سلسلہ رہا۔ لگتا نہیں تھا کہ انتہائی مذہبی ہیںلیکن اپنے خالق و مالک کی عبادت خضوع و خشوع سے کرتے تھے ۔جب بھی ملتے دعائیں دیتے تھے ،ہم ان کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کت درجات بلند فرمائیں اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں ۔
معروف اینکر پرسن ، کالم نویس سلیم احمد ملک نے کہا کہ میری قمر علی عباسی سے شفقت بھری دوستی ہوگئی۔ وہ میرا ہی نہیں بلکہ ہر کالم نویس کا ہر ایک کا کالم پڑھتے تھے۔ تجاویز دیتے تھے۔میں نے فادر ڈے پرایک کالم لکھا۔ اگلے روز قمر عباسی نے کال کی اور کہا کہ کالم لکھ کر میری بات کا حق ادا کردیا۔ وہ دلوں میں رہنے والی مشفق شخصیت تھے۔ عابد رافع اور قمر بشیر کا شکرئیہ کہ جنہوں نے قمر علی عباسی کا نام زندہ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
شیخ توقیر الحق نے کہا کہ بارہ سال کی عمر میں یتیم ہوا۔ قمر اور نیلوفر عباسی نے ہمیں پہلی جاب دلوائی۔ یہاں آنے کے بعد نیویارک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ عباسی ایک علم کا سمندر اور روشنی کا مینار تھے۔ وہ رہنما کرن اور روشنی تھے۔ وہ قول کے پکے انسان تھے۔