نیو جرسی میں محترمہ قیصر طارق کے گھر پر ادبی محفل کا انعقاد
پروگرام کے آغاز میں عاکف طارق نے اپنے والد آصف الرحمان طارق اور حفیظ کاشمیری مرحوم کی روح کو ایصال ثواب کے لئے دعائے مغفرت کی
بزرگ شاعر یونس شرر اور ممتاز افسانہ نگار اور کالم نویس کامل احمر،نظامت مشترکہ طور پر قیصر طارق اور جمیل عثمان نے کی ،شاعر اعجاز بھٹی کی بھی شرکت
آصف الرحمان طارق مرحوم ایک بلند پایہ مصنف اور افسانوں کے چار مجموعوں کے خالق تھے ،وہ ہر دو تین مہینوں پر اپنے گھر ادبی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے
2016 میں ان کے انتقال کے بعد بھی محترمہ قیصر طارق نے اپنے مرحوم شوہر کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے اور وہ ہر سہ ماہی، افسانہ نگار اور شاعر جمیل عثمان کے ساتھ مل کر ادبی محفلیں سجاتی ہیں
نیوجارسی (اردو نیوز )نیوجرسی میں محترمہ قیصر طارق کے گھر پر گذشتہ ہفتے ایک ادبی تقریب منعقد ہوئی۔ پروگرام میں شرکت کے لئے بزرگ شاعر یونس شرر اور ممتاز افسانہ نگار اور کالم نویس کامل احمر کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا – پروگرام کی نظامت مشترکہ طور پر قیصر طارق اور جمیل عثمان نے سر انجام دیا ، معروف شاعر اعجاز بھٹی بھی موجود تھے ۔ ان کے علاوہ علم و ادب سے دلچسپی سے رکھنے والے نیو جرسی اور نیو یارک کے مہمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
پروگرام کے آغاز میں عاکف طارق نے اپنے والد آصف الرحمان طارق اور حفیظ کاشمیری مرحوم کی روح کو ایصال ثواب کے لئے دعائے مغفرت کی ۔ اس کے بعد قیصر طارق نے لوگوں کو خوش آمدید کہا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک نئی طرح ڈالی ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا اعتراف کریں جو ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ ورنہ مرنے کے بعد تو سبھی کرتے ہیں – یہ اس سلسلے کی تیسری کڑی ہے ۔ اس سے پہلے ہم پروین شیر اور حماد خان کواپنے پروگرام میں بلا چکے ہیں ۔ انہوں نے یونس شرر کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یونس شرر صاحب ایک انقلابی شاعر ہیں اور انہوں نے جمہوریت کے لئے آمروں سے ٹکر لی ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ اس وقت ہم میں موجود ہیں – اس کے بعد جمیل عثمان نے کامل احمر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ کامل ایک بلند پایہ افسانہ نگار، ایک بے باک کالم نگار اور نڈر صحافی ہیں ۔
حسب روایت قیصر طارق نے سب سے پہلے آصف الرحمان طارق صاحب کے افسانے سے اقتباس سنایا ۔ آج کا افسانہ تھا “پاندان” آصف الرحمان طارق کی گنگا جمنی زبان اور محاوروں سے مرصع زبان سے سبھی لطف اندوز ہوئے – اس کے بعد انہوں نے یونس شرر سے درخواست کی کہ وہ اپنے بارے میں لوگوں کو بتائیں – شرر صاحب نے اپنے طالب علمی کے زمانے، آمریت کے خلاف جدوجہد، درس و تدریس اور بالآخر جلاوطنی کے بارے میں مفصل گفتگو کی۔ لوگوں نے ان کی گفتگو بہت غور سے سنی – اس کے بعد کامل احمر نے اپنا افسانہ “پوست کے ڈوڈے” سنایا، یہ افغانستان میں غیر ملکیوں کی ریشہ دوانیوں کی کہانی تھی اور بتایا گیا تھا دہشت گرد کیسے پیدا ہوتے ہیں ، بہت تاثر انگیز افسانہ تھا جسے لوگوں نے بہت سراہا – اس کے بعد شرر صاحب سے درخوست کی گئی کہ وہ اپنا کلام سنائیں – شرر صاحب نے اپنی غزلوں اور نظموں سے شرکاءمحفل کے دل جیت لئے – ان کا ایک شعر:
اک عمر تک ہم بے ضمیری اوڑھ کر سوتے رہے
کچھ خبر ہے کتنی نسلوں کو رہن رکھا گیا
بعد ازاں مقبول و معروف شاعر جناب اعجاز بھٹی نے اپنی نظموں اور غزلوں سے لوگوں کو بہت محظوظ کیا – انہوں نے پنجابی اور اردو میں اپنی شاعری سنا کر حاضرین سے داد وصول کی – محترمہ قیصر طارق انکی پنجابی نظم سن کر آبدیدہ ہو گئیں – انکی غزل کا ایک شعر:
میں شاعر ہوں مگر جھوٹے قصیدے لکھ نہیں سکتا
میں اپنی پاک دھرتی کے ترانے ساتھ رکھتا ہوں
ڈاکٹر عرفان الحق نے تجویز پیش کی کہ ہم تمام لوگوں کو مل کر ایک جگہ خرید لینی چاہیے، جہاں ایک لائبریری بنائی جائے اور اردو کی کتابوں کی حفاظت کی جائے – اس جگہ ہم مستقل طور پر اپنے پروگرام منعقد کر سکیں گے، لوگوں نے ان کی رائے سے اتفاق کیا ،
اب باری تھی جمیل عثمان کی جنہوں نے اپنا افسانہ “آخری چارہ” سنایا جسے بہت پسند کیا گیا – جناب رفیع محمد نے ایک مزاحیہ خاکہ اور مریم خان نے طارق صاحب کی یاد میں ایک مضمون پیش کیا – آخر میں قیصر طارق صاحبہ نے اپنا افسانہ “قبولیت” سنایا – یہ ایک ایسے گورکن کی کہانی تھی جو دعا کرتا ہے کہ کوئی مر جائے تا کہ اس کی آمدنی ہو اور اس کے گھر کا چولہا جل سکے – خدا کا کرنا کہ اسی کا بیٹا ایک حادثے میں مر جاتا ہے اور لوگ اس کی لاش اٹھا لاتے ہیں کہ “اس کی قبر کھودو”
سب سے آخر میں محفل موسیقی سجائی گئی، جس میں عبد المقتدر، سلمیٰ علی اور ریٹا کوہلی نے غزلیں گائیں اور حاضرین کو بہترین تفریح فراہم کیا ۔