" "
خبریںپاکستان

پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تڑوانے اور بچانے کی جنگ

پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے درمیان دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور بچانے کی جنگ شروع ہوگئی ہے

 لاہور، پشاور، اسلام آباد (اردو نیوز ) پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے درمیان دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور بچانے کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے حکمت عملی بنانے کیلئے اجلاس بلالئے ہیں، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ملاقات ہوئی ہے جس میں سیاسی صورتحال بالخصوص پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے پر مشاورت ہوگئی، اس حوالے سے اتحادیوں نے سابق صدر کو فیصلے کا اختیار دیدیا ہے۔اس ملاقات کے بعد آصف زرداری کی وزیر اعظم شہباز شریف سے اہم ملاقات ہوئی ہے جبکہ میاں نواز شریف سے بھی فون پر رابطے ہیں ۔

وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے ، توڑنے کا کہیں گے تو آدھا منٹ بھی نہیں لگاوں گا۔وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عمران خان وفاقی حکومت گرانے آئے تھے اپنی حکومتیں گرانے کا اعلان کرگئے۔معاون خصوصی اطلاعات وزیراعلیٰ کےپی محمدعلی سیف نے کہاکہ اسمبلی استعفوں سے متعلق عمران خان کے حکم پر فوری عمل ہوگا،سیاسی بحران کا واحد حل فوری اور شفاف الیکشن ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کے اعلان کا آئینی طور پر کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی نے تمام ارکان اسمبلی چھوڑنے کیلئے تیار ہیں۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور ہوا اور وزیراعلیٰ کو گورنر کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے سے متعلق بھی مشاورت بھی کی گئی۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ن لیگ کے 18 ارکان صوبائی اسمبلی کو معطل کر رکھا ہے، یہ ارکان 15 اجلاسوں میں شرکت نہیں کرسکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔رولز آف پروسیجر کے تحت عدم اعتماد میں ن لیگ کے 18 ارکان کردار ادا نہیں کر سکتے، عدم اعتماد تاحال پیش نہ ہونے کی وجہ یہ معطل ارکان ہیں۔پنجاب اسمبلی کے 371 کے ایوان میں تحریک انصاف 180 ارکان ہیں، تحریک انصاف کو مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے، یوں حکومتی اتحاد کو 190 کے ہندسے پر برتری حاصل ہے۔اپوزیشن اتحاد 180 ارکان کی حمایت حاصل ہے، مسلم لیگ ن 167، پیپلز پارٹی 7، آزاد ارکان 5 اور راہ حق پارٹی 1 ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس وقت 24 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔

اجلاس میں سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا جائیگاجبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی اپوزیشن جماعتیں ایوان کو تحلیل ہونے سے بچانے کیلئے متحرک ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے استعفیٰ کے اعلان کے بعد عملدرامد کیلئے سینئرلیڈرشپ کا اجلاس لاہور میں طلب کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف سمیت دیگر اتحادیوں نے پنجاب حکومت سے متعلق ٹاسک آصف علی زرداری پر چھوڑ دیا ہے۔اس حوالے سے خصوصی ٹاسک کی سربراہی آصف زرداری کرینگے، نواز شریف سمیت اتحادی قائدین نے اس حوالے سے فیصلوں کا اختیار بھی آصف علی زرداری کو دیدیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان غیر متعلقہ ہو چکے ہیں، حکومت عمران خان کی چار سال میں لائی تباہی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ایک بیان میں مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ الیکشن وقت سے پہلے کیوں کرائیں کیونکہ عمران خان کا اقتدار ختم ہو گیا ہے، گرانے وفاق کی حکومت آئے تھے اور اپنی دونوں حکومتیں گرانے کا اعلان کر کے چلے گئے۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ کوئی فیس سیونگ پی ٹی آئی کے کام نہیں آسکتی کیونکہ عوام ان کے حقیقی فیس سے واقف ہے، حالات بدل گئے لیکن ایک شخص کا جھوٹ، فسادی ذہن اور ایجنڈا نہیں بدلا۔
 ادھر خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی چھوڑنے کیلئے تیار ہیں، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے کہاہے کہ پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے، اسمبلی توڑنے کا کہیں گےتوایک منٹ تاخیرنہیں ہوگی

 اسمبلیوں سے استعفے دئیے تو شہباز شریف کی 27 کلومیٹر کی حکومت 27 گھنٹے بھی نہیں چل سکے گی، ہم وضع دار لوگ ہیں جسکے ساتھ چلتے ہیں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے،معاون خصوصی اطلاعات وزیراعلیٰ کےپی محمدعلی سیف نے کہاکہ سیاسی بحران کے خاتمے کا واحد حل نئے اور شفاف انتخابات ہیں، اسمبلی استعفوں سے متعلق عمران خان کے حکم پر فوری عمل ہوگا۔

خیبرپختونخوا حکومت عمران خان کے ہر حکم پر من و عن عمل درا?مد کریگی۔ استعفے، اسمبلی تحلیل اور حکومت سے نکلنے کیلئے تیار ہیں، اگر امپورٹڈ حکومت ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہے تو الیکشن کا اعلان کرے۔

Related Articles

Back to top button