امریکی صدر جو بائیڈن نے ”اومی کرون“ کا مقابلہ کرنے کےلئے اپنی حکمت عملی کا اعلان
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم کورونا کی نئی قسم اومی کرون کا مقابلہ پریشان ہو کر کرنے کی بجائے سائنٹیفک طریقے سے کریں گے
نیویارک (محسن ظہیر سے )امریکی صدر جو بائیڈن نے کورونا وائس کی نئی قسم ”اومی کرون“ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی کا اعلان کر دیا ہے ۔ امریکی نائب صدر کمالا ہیرس اور چیف سائنسدان ڈاکٹر انتھونی فاو¿چی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم کورونا کی نئی قسم اومی کرون کا مقابلہ پریشان ہو کر کرنے کی بجائے سائنٹیفک طریقے سے کریں گے ۔
صدر بائیڈن نے امریکی عوام پر زور دیا کہ جنہوں نے کورونا ویکسین نہیں لگوائی وہ فوری لگوائیں اور جنہوںنے لگوا رکھی ہے ، وہ بوسٹر شاٹ لگوائیں ۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم لاک ڈاو¿ن اور شٹ ڈاو¿ن کی پالیسی اپنانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ امریکی عوام کو کورونا ویکسین اور بوسٹر لگوانے اور ہر ممکن احتیاط کی حکمت عملی پر عمل کریں گے ۔صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ ماسک مینڈیٹ کی بجائے امریکی عوام سے کہیں گے کہ وہ ماسک پہنیں اور سماجی فاصلوں کی پابندیوں سے سمیت ہر ممکن احتیاط کریں ۔صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ کورونا وبا سے بچنے کےلئے یہ بھی لازم ہے کہ دنیا بھر میں کورونا ویکسین ہر ایک کو دستیاب ہو ۔ امریکہ اس سلسلے میں اپنا کردارادا کررہا ہے اور آنیوالے دنوں میں اس کردار کو مزید بڑھائے گا۔صدر بائیڈن نے کہا کہ کرسمس سمیت تعطیلات کا موسم آنے والا ہے اور ہمیں ہر ممکن احتیاط اور ویکسین کے ساتھ خود کو محفوظ رکھنا ہوگا۔
وائٹ ہاوس میں گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ یہ بات یقینی ہے کہ اومکرون قسم کا وائرس امریکہ بھی پہنچے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکی شہریوں کو بچانے کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں، وہ موجود ہیں۔ جیسا کہ منظور شدہ ویکسین اور بوسٹر شاٹ۔بائیڈن نے امریکہ کے اندر، ایک اندازے کے مطابق، پانچ سال کی عمر سے زیادہ کے80 ملین یعنی آٹھ کروڑ ویکسین نہ لگوانے والے افراد سے اپیل کی کہ وہ ویکسین لگوا لیں۔ انہوں نے باقی شہریوں سے کہا کہ وہ ویکسین کی دوسری خوراک کے چھ ماہ بعد بوسٹر شاٹ لگوا لیں۔
ڈاکٹر فاوچی نے اے بی سی ٹیلی ویڑن کے پروگرام ’گڈ مارننگ امریکہ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیاس آرائی قبل از وقت ہو گی۔کرونا کا نیا ویرئینٹ ایک ایسے نئے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔