نیویارک میں ”پپل کیفے“ ڈرما ں والا چوک بنا کر سیالکوٹ کی یاد منفرد انداز میں تازہ
کہتے ہیں کہ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں لیکن جس مٹی میں آپ پلے بڑھے ہیں، اس کی یاد ہمیشہ آپ کا پیچھا کرتی ہے اور آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے
نیویارک (اردو نیوز ) کہتے ہیں کہ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں لیکن جس مٹی میں آپ پلے بڑھے ہیں، اس کی یاد ہمیشہ آپ کا پیچھا کرتی ہے ۔کچھ ایسا ہی صورتحال نیویارک میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پانچ لنگوٹی دوستوں کی بھی ہے جو کہ برس ہا برس پہلے سیالکوٹ شہر میں واقع مشہور ڈرماں والے چوک میں واقع پپل کے درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگا کر، کھیل کود کرکے اپنا وقت گذارا کرتے تھے ۔
ان دوستوں میں انور شاہ واسطی ، چوہدری شمس، شاہد قریشی ، مبشر ارشاد، خواجہ نعیم شامل تھے جنہوں نے بر سہا برس پہلے سیالکوٹ چھوڑا ور معاش کی تلاش میں مختلف شہروں اور ملکوں سے ہوتے ایک بار پھر امریکہ کے شہر نیویارک میں آکر اکٹھے ہو گئے ۔
ان دوستوں میں سے ایک انور شاہ واسطی نے نیویارک میں ”پپل کیفے“ ڈرماں والا چوک قائم کرکے نہ صرف بچپن کی یادیں تازہ کر دیں بلکہ بچپن کے دوستوں کو ”پپل کیفے“ میں اکٹھا کرکے نیویارک میں سیالکوٹ کی یاد منفرد انداز میں تازہ کر دی ۔
پپل کیفے میں پانچوں دوست گذشتہ دنوں اکٹھے ہوئے جہاں ان کے اعزازمیں انور واسطی کی جانب سے پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ان کے قریبی دوستوں ملک جمیل اور تصور ارشاد ،خالد محمود نے خصوصی شرکت کی ۔
اس موقع پر شرکاءنے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور فیصلہ کیا کہ وہ جب بھی انہیں سیالکوٹ کی یاد آئے گی ، وہ پپل کیفے میں اکٹھے ہو جایا کریں گے ۔نیویارک ٹرائی سٹیٹ ایریا میں بسنے والی پاکستانی امریکن کمیونٹی میں ہزاروں ارکان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے ۔
کہتے ہیں کہ انسان کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا ۔مفلسی میں اسے مال و دولت کی کشش محسوس ہوتی ہے ، بڑے شہر اور ملکوں کی چکا چوند اپنی طرف کھینچتی ہے اور جب بندہ ان منزال پر پہنچ جاتا ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے اپنے اصل کی یاد ستانے لگ جاتی ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال دنیا بھر کے مختلف ممالک بشمول امریکہ میں بسنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی ہے ۔ پہلی جنریشن کے امیگرنٹس کی اکثریت سب کچھ کمانے اور بنانے کے باوجود بیشتر اوقات Home Sick محسوس کرتی ہے اور ان کا دل کرتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے اصل کی طرف واپس لوٹ جائیں
جہاں تک بیرون ممالک میں بسنے والے دوسری اور تیسری جنریشن کے امیگرنٹس کا تعلق ہے تو ان میں کے ”پپل کے درخت“ اور ان کے ”ڈرماں والا چوک“ جیسی بچپن کی یادیں اور مراکز سب وہاں پر ہی ہیں کہ جہاں وہ پلے اور بڑھ رہے ہیں ، اس لئے ان میں اپنے والدین اور آباو¿ اجداد کے وطن کی طرف زیادہ کشش محسوس نہیں ہو تی تاہم کمیونٹی کے بزرگ اور سینئر ارکان کا کہنا ہے کہ جو امیگرنٹس اپنے بچوں کے روٹس (تعلق) پیچھے وطن میں قائم رکھتے ہیں ، ان کے بچوں کے تعلق اور نسبتیں بھی پیچھے قائم رہتی ہیں بصورت دیگر دوسری اور تیسری جنریشن والے امیگرنٹس کا رشتہ وطن کے ساتھ آہستہ آہستہ ماند پڑتا جاتا ہے۔
پاکستانی امریکن کمیونٹی کے بیشتر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کی شادیاں اوورسیز میں موجود دوست احباب یا پیچھے پاکستان میں موجود دوست احباب کے بچوں کے ساتھ کریں ۔ ان میں سے بیشتر شادیاں کامیاب ہوتی ہیں لیکن ایسے کیس بھی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ ماحول اور کلچر کے خلیج کی وجہ سے بچوں کے رشتے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے ۔
کمیونٹی کے بڑے اس مسلہ کا حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ اول تو بچوں پر والدین اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے ان کے ساتھ چلیں اور ان کی پیروی کریں اور دوسرا بچوں کو شروع ہی سے گھر اور کمیونٹی میں وہ ماحول دیں کہ جس میں بچے ماحول کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی خلیج محسوس نہ کریں ۔