بین الاقوامی تعلقات میں مفادات کا حصول صرف اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جبکہ آپ کو اپنے اہمیت کا مکمل طور پر ادراک ہو اور دوسروں کی ضروریات اور ترجیحات آپ کے لیے واضح ہو۔ پاک چین تعلقات ان دونوں میں اس بنیادی نظرئیے کو اہمیت حاصل ہیں ۔
وزیراعظم مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے ۔ مدعوئین کی تعداد گذشتہ برسوں کی نسبت محدود تھی مگر تحریک انصاف کے رہنما صف باندھے قطار میں ضرور نظر آئے۔ پاک امریکہ تعلقات کی اپنی ایک مخصوص اہمیت ہے۔ ہزاروں شکوے ، شکایتیں ایک دوسرے سے ہو سکتے ہیں مگر ان تعلقات کی اہمیت دونوں ممالک کے لئے مسلم ہے ۔شہباز شریف نے ایک تقریر کرتے ہوئے اس اہم نکتے پر کھل کر اظہارِ خیال کیا کہ پاکستان ،پاکستان ہے اور پاکستان کو افغانستان یا چین کے تناظر میں دیکھنا درست رویہ نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چین سے ہمارے تعلقات کی ایک علیحدہ نوعیت ہے جبکہ امریکہ سے اس کی اپنی ایک نہج ہے ۔ پاکستان کسی کے سبب سے کسی سے تعلقات کو نہ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے ۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان ایک معتدل خارجہ پالیسی پر قائم رہے گا اور اس پر قائم بھی رہنا چاہیے اور اس حکمت عملی سے کسی دوسرے ملک کو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
پاکستان اس وقت سیلاب کی بدترین قدرتی آفت کا شکار ہے اور اس قدرتی آفت کی ایک بڑی وجہ قدرتی کے ساتھ ساتھ انسان کا خود سے ماحول کو خراب کرنا ہے ۔ اسی لیے وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر اس آفت کے حوالے سے جو پاکستان کے لیے مسائل کا پیغام لایا ہے کھل کر گفتگو کی ۔ جب موسمیاتی تبدیلی پر گفتگو ہو رہی تھی تو مجھے اس پر چینی صدر شی کی ایک تقریر اور کیمونسٹ پارٹی آف چین کی سنٹرل کمیٹی کی اس حوالے سے چینی حکومت کو دی گئی ہدایات یاد آ رہی تھی کہ انہوں نے اس مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے لیا ہے ۔
کاربن کے فضا میں پھیلنے کے مہلک اثرات سے نمٹنے کے لیے وہ کتنے عرصے سے پر عزم ہے ۔ حالاں کہ اس سے چین پر وقتی طور پر مالی بوجھ پڑے گا مگر چین اس مالی بوجھ کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ عالمی برادری کے تحفظ کے لئے بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ چینی صدر شی نے 22 جنوری2022 کو” پیک كاربن اینڈ کاربن نیوٹریلیٹی ” کے عنوان سے تقریر کی کہ جس میں انہوں نے کہا کہ
” 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بہتر اخراج اور دو ہزار ساٹھ تک کاربن نیوٹریلیٹی ترقی کے نئے فلسفے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ ترقی کی نئی جہت تیار کرنے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ایک چابی ہے ۔ یہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اس تزویراتی فیصلوں کی آئینہ دار ہے جو انہوں نے مقامی اور عالمی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کئے ہیں” ۔
2030 سے 2060 تک کے درمیان تک چین کا ارادہ یہ ہے کہ وہ مکمل ماحول دوست ٹیکنالوجی پر آجائے گا اور 2030 تک بھی کاربن کے بد اثرات کو ممکن حد تک کم کر دے گا ۔ چین نے صرف اس حوالے سے بیانات ہی نہیں داغے ہے بلکہ وہ اس حوالے سے متحرک بھی ہے ۔ چین کی عالمی حیثیت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ وہ مصنوعات تیار کرنے کے حوالے سے کیا حیثیت رکھتا ہے
۔چین ماحول دوستی کے حوالے سے نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر رہا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لئے باقاعدہ پروگرام بھی ترتیب دے چکا ہے ۔ چین اس حوالے سے عالمی برادری کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے ۔اور یہ واضح رہنا چاہیے کہ اگر دنیا کے دیگر بڑے ممالک نے ایسی مثالیں قائم نہ کی تو پاکستان کو بار بار آفات کا سامنا کرے گا جواب قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کی كارستانی ہے ۔