قومیں کیسے تباہ ہوتی ہیں ؟ بڑی بڑی مملکتیں حرف غلط کی مانند کیسے مٹا دی جاتی ہے ؟ شعوری طور پر دیے گئے غلط فیصلے، قانون سے کھلواڑ اس کے استعمال کو مذاق جاننا بس تباہی کی کہانی یہی ہوتی ہے۔ امین ،ہارون رشید کے بعد عباسی سلطنت کے تخت خلافت پر متمکن ہوا۔ایک دن اپنے وزیر فضل بن ربیع کے ساتھ نرد کھیلتا رہا۔ دونوں نے اپنی اپنی انگوٹھی کی بازی لگائی ،امین غالب آگیا اس نے فضل کی انگوٹھی جیت لی۔ جس پر فضل کا نام کھدا ہوا تھا۔ امین نے فورا ہی فضل کے علم میں آئے بغیر ایک کاریگر کو بلا کر فضل بن ربیع کے نام کے ساتھ ” ینکح ” بھی دوادیا۔
اب انگوٹھی کی عبارت کچھ یوں بن گئی کہ فضل بن ربیع نکاح کرنے والا ہے۔ کچھ دیر بعد امین نے انگوٹھی واپس کر دی اور فضل کو عبارت میں تبدیلی کا علم نہ ہوا۔ کچھ دنوں بعد فضل امین کے پاس آیا تو امین نے اس سے کہا دیکھو تمہاری انگوٹھی پر کیا لکھا ہوا ہے ؟ فضل نے دیکھا تو سارا واقعہ سمجھ گیا اور بولا بخدا یہ تو سخت بے بسی و نادانی ہے، میں آپ کا وزیر ہوں اور اتنے دنوں سے میں ہر طرف کاغذات پر بھی یہی مہر لگا لگا کر بھیج رہا ہوں ،یہ تو ملک کی تباہی کی آخری علامت ہے نہ مجھے فلاح نصیب ہوگی اور نہ آپ کے ساتھ ہماری قوم کو۔ کچھ عرصے بعد امین اپنے سوتیلے بھائی مامون کے جرنیلوں طاہر بن حسین وغیرہ کے ہاتھوں مارا گیا۔عباسی سلطنت کے آخری خلیفہ مستعصم نے والی موصل بدر الدین کو لکھا کہ گانے بجانے والے بھیج دو۔ اور اسی وقت والی موصل کو ہلاکو خان کا پیغام پہنچا کہ منجنیق اور دوسرے آلات حصار بھیج اس وقت والی موصل نے کہا کہ دونوں قسم کے مطالبوں کو دیکھ لو اور اس کے بعد اسلام اور اہل اسلام پر آنسو بہاو۔
حالانکہ مستعصم کے زمانے میں عوام اس حد تک تنگ آ گئے تھے کہ بغداد کے دروازوں پر یہ شعر لکھ دیے تھے کہ “خلیفہ سے کہو کہ ذرا ٹھہرو تمہارے پاس وہ چیز آرہی ہے جسے تم پسند نہیں کرتے ، آگاہ رہو کہ تم پر طرح طرح کی نامعلوم مصیبتیں آنے والی ہے ،پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہو ورنہ تم پر بربادی اور جنگ چھا جائے گی، شکست ،ہتک قید ضرب ،لوٹ اور کھسوٹ سب کچھ ہوگا۔ مگر اس سب کے باوجود مستعصم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ وہ بغداد اور حل کے درمیان شکار کھیلتا رہا اور گدھوں پر اپنے نشان لگاتا رہا کہ ان جنگلی گدھوں کی عمر بہت ہوتی ہے لہذا دیر تک میرا نام زندہ رہے گا۔ گدھے تو پتہ نہیں کب تک زندہ رہے مگر ہلاکو خان نے مستعصم کو یا تو کمبل میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں سے یا مارکوپولو کے بیان کے مطابق مستعصم کو اس کے خزانے کے ساتھ بند کر دیا کہ ان کو کھا کر زندہ رہ سکتے ہو تو رہو اور مستعصم مارا گیا۔ فضل بن ربیع سے لے کر بغداد کے دروازوں پر لکھے گئے اشعار چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ قانون کو ،مملکت کو، نظم مملکت کو مذاق نہ بناو¿۔ کیا مصیبت ہے کہ یہی رونا آج تک ہماری عوام رو رہی ہے کہ قانون کو، مملکت کو، نظم مملکت کو تماشہ نہ بناو¿۔ یہ من پسند غلطیاں اور پھر اس کی من پسند تصحیح ، صرف مملکت سے اس کے قانون سے کھلواڑ کیا جارہا ہے مگر نہ اس وقت کسی کے کان پر جوں رینگی اور نہ ہی کوئی آج اس کو سمجھنے کے لئے تیار ہے۔
اس رویہ کا نتیجہ تاریخ میں بہت عبرتناک ہے۔ حالاں کہ وطن عزیز کے ارد گرد ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے کہ جن پر اندرونی سازشوں کو ترک کرکے گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین ”ابراہم ایکارڈ“(معاہدہ ابراہیمی ) کی بازگشت عرصے سے ادھر بھی سنی جا رہی ہے۔ اسی کے ضمن میں یہ بات واضح ہے کہ فارن فنڈنگ کیس، فنانشل ٹائمز کی رپورٹ پر درج تفصیلات سے اصل معاملہ یہ جاننا چاہیے کہ بھارت اور اسرائیل کے افراد فنڈز کیوں مہیا کر رہے تھے۔
یو اے ای کے حوالے سے تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ سی پیک کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے فنڈنگ کی اور جس میں وہ کامیاب ہو گئے ،مگر اسرائیل کیا چاہتا ہے ؟ ذرا قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی رکن کی اسرائیل کی حمایت میں کی گئی تقریر سے لے کر وزیراعظم آزادکشمیر تک کی گفتگو کا تجزیہ کرے ، پھر عمران خان کی بطور وزیراعظم گفتگو کے ان پر اسرائیل کے قبول کرنے کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کو سامنے رکھ لیجئے۔ اس کو بیان کرنے کا مقصد ہی درحقیقت یہ تکنیک کا استعمال تھا کہ اس حوالے سے عام لوگوں میں ایک بحث مباحثے کی کیفیت پیدا ہو جائے اور ایک ایسے مسئلے پر قوم منقسم ہو جائے کہ جس پر ابھی تک یک زبان ہے اور اس حوالے سے کوئی دوسرا راستہ پیدا ہوجائے۔ اس معاملے میں شہباز حکومت کو کسی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اس کے کرداروں کے خلاف فوری قانونی کارروائی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
ابھی تو صرف فنانشل ٹائمز کی سنسنی خیز رپورٹ سامنے آئی ہے اس وقت تو بالکل ہوش ہی اڑ جائیں گے جب ان تقریبات کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آجائے گی۔ یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ” ابراہم ایکارڈ“(معاہدہ ابراہمی) میں پاکستان کی شمولیت کی کوئی بھی کوشش یا اسرائیل کو کوئی بھی رعایت دینا، جیسے ماضی میں پاکستانی مفاد میں نہیں تھا ویسے ہی آج بھی سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
پاکستان میں متعین ایک سابق قطری سفیر نے مجھے کہا تھا کہ ہمارے نزدیک پاکستان مسلم ممالک کی سپرپاور ہے مگر پاکستان اپنی حیثیت کے مطابق کردار ادا نہیں کر پاتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے خطے میں جاری کشمکش میں کسی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اپنے آپ کو محدود کرنے کی بجائے اس صورت حال میں اپنی علیحدہ سے اہمیت کو برقرار رکھنا اور اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔