یہ جنوری 2018 کی بات ہے سینٹر عثمان خان کاکڑ لاہور میں میرے پاس تشریف لائے۔ مشرف کی رخصتی کے بعد دوبارہ یہ تصور کے ہم سب سے زیادہ محب وطن اور معاملہ فہم ہیں قیامت ڈھانا شروع کر چکا تھا۔ جولائی 2017 کے واقعات نے ملک کے آئین، جمہوری نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں جو کہ ابھی تک ہل رہی ہیں۔ بلوچستان میں سینٹ کے انتخابات سے قبل سب کچھ تہہ و بالا کرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں ان حالات میں جب مرحوم عثمان کاکڑ لاہور تشریف لائے تو ” ابلتا بلوچستان ” کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام راقم الحروف نے کیا۔ ابھی گفتگو کا آغاز نہیں ہوا تھا تو عثمان کاکڑ نے مجھ سے پوچھا کہ مہدی بھائی آپ کے خیال میں اس وقت پاکستان میں جمہوریت کی کیا حالت ہے ؟ میں بولا ” پانچ لوفر ایک ہیروئن ” وہ حیرت سے میرے منہ کی جانب تکنے لگے میں مسکرایا اور کہا لالہ یہ کرشن چندر کا ایک ناول ہے اور اس وقت اس ٹائٹل سے بہتر مجھے کوئی جواب نہیں ملا کیونکہ جمہوریت ایک ہیروئن کی ہی مانند ہے کہ جس کے پیچھے اب پانچ لوفر ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ ایک قہقہ بلند ہوا اور عثمان خان مرحوم نے اپنی گفتگو کا آغاز کردیا۔
پختون قوم پرست جماعت کے انتہائی اہم رہنما نے اپنی گفتگو کا آغاز ہی پاکستان کے نام سے کیا۔ جولائی 2017 کے بعد ایک ٹوٹی ہوئی مالا کے دانوں کی مانند جو واقعات برق رفتاری سے جمہوریت کو کمزور ہونے کی غرض سے ہو رہے تھے ان کا تذکرہ کیا اور مقابلے کا عہد باندھا۔ پھر وفاق کو لاحق خطرات پر بولنا شروع ہوگئے۔ المیہ یہ ہے کہ کسی قوم پرست رہنما کی کڑوی کسیلی باتیں تو یاد رہ جاتی ہے مگر جب اسی طرح یہ قوم پرست رہنما یہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان کی تقدیر جمہوریت میں پنہاں ہے تو اس میں سے بھی صاحبان طاقت کو غداری کی بو آنے لگتی ہے۔ حالانکہ جمہوریت کا آئین کی روح کے مطابق ھونا عین وفاداری ہے۔
جمہوریت اور جمہوری جدو جہد نے قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے اور اسی سبب سے عثمان خان کاکڑ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف ملک میں جمہوریت کی علامت بن چکا ہے۔ ایک پختون قوم پرست لاہور کی سرزمین پر یہ کہہ رہا تھا۔ وطن عزیز کی بقاءسلامتی خوشحالی کس میں ہے عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہے۔ مگر یہاں پر کسی بھی اشارے کو سمجھنے کی بجائے اشارہ توڑنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو خواجہ آصف کو پابند سلاسل رکھنے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ حالانکہ یہ فیصلہ کرنے والے اچھی طرح سے جانتے تھے کہ خواجہ آصف کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکیں گے جب خواجہ آصف کی ضمانت کی خبر ملی تو مجھے میرے ایک دوست نے میرا ان کی گرفتاری کے بعد شائع شدہ کالم واٹس اپ پر ارسال کر دیا اور اس کے نیچے تحریر کیا کہ آپ نے اس وقت درست پیشن گوئی کی تھی کہ اس مقدمے میں سے کچھ نہیں نکلنا ہے۔ میں نے جواب میں لکھا کہ اس مقدمے کے ساتھ ساتھ دیگر جتنے مقدمات قائم ہے یا مستقبل میں قائم کیے جا سکتے ہیں ان کے حوالے سے بھی یہ بالکل واضح ہے کہ کچھ نہیں نکلنا ہے یہ تو سب کے سب پولیٹیکل انجینئرنگ کی غرض سے کئے گئے اقدامات ہیں۔
اس کالم میں تحریر کیا تھا کہ خواجہ آصف کے پاس دو راستے تھے اول تو وہ نواز شریف کو چھوڑ جاتے تو اس وقت گنگا نہائے ثابت کئے جارہے ہوتے دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے اور یہ تمام صعوبتیں برداشت کرے انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور جب اس راستے پر چل نکلے تو یہ امر لازم ہے کے وہ جیل یاترا ضرور فرمائیں گے۔ مگر اس سب سے ان کا قد بڑا اونچا ہی ہوا ہے ۔ سیاسی مقدمات میں جیل جانے، مقدمات بھگتنے سے قیدی کو جسمانی اذیت کا تو سامنا کرنا پڑتا ہے مگر معاملہ چاند پر تھوکنے جیسا ہی ہوتا ہے۔ ان مقدمات کی حیثیت کو سمجھنے کے لئے برادر بزرگ ڈاکٹر فرید پراچہ کی خود نوشت ” عمر رواں ” میں سے ان پر سولہ سال کی عمر میں قتل کے الزام کی داستان کو پڑھ لیجئے کہ کیسے فرید پراچہ جیل میں قید تھے تو ان کو پتہ چلا کہ ان پر ان کی جیل میں آنے کے دو دن بعد سڑک پر کھڑے ایک پولیس کانسٹیبل کے قتل ( جاں بحق ) کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ اگر وہ شناخت پریڈ کے وقت سمجھداری کا مظاہرہ نہ کرتے تو ان کو سوکھے درخت کی مانند کر دینے کی تیاریاں مکمل تھی۔ خواجہ آصف ہوکے عثمان کاکڑ مرحوم ان پر عائد الزامات، مقدمات کی یہی حقیقت ہے۔ حالانکہ اس سے کوئی اور نہیں وطن عزیز سوکھ رہا ہے