کسی بھی حکومت کی مانند موجودہ حکومت کو بھی اصل مسئلہ معاشی مشکلات سے قوم کو نکالنا اور محفوظ رکھنا ہے اور کامیابی ناکامی کا تعین بھی اسی پیمانے سے ممکن ہے۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے میں جو ڑوڑے راستے کو دشوار کیے بیٹھے ہیں۔ ان میں سرفہرست افغانستان کے حالات ہیں۔ اس لیے کے اثرات معاشی، امن وامان اور سفارتی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں مگر اصل کامیابی اس حوالے سے اس لمحہ ہی وقوع پذیر ہو گی جب ہم دنیا اور افغان طالبان کو ایک پیج پر لے کر جائے۔
اس وقت سفارتی طور پر شہباز شریف حکومت کو یہ بہت اہم چیلنج درپیش ہے کیونکہ اگر افغانستان کے موجودہ حالات برقرار رہیں۔ افغان طالبان اور امریکہ اور دیگر ممالک کے مابین خلیج موجود رہی تو ایسی صورت میں وطن عزیز میں دہشت گردی کا عفریت دوبارہ توانا ہونے کے لئے بس تیار ہی بیٹھا ہے اور اس کی یہ تیاریاں ہمیں گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے فوجیوں کی مستقل طور پر شہادتوں سے صاف نظر آرہی ہے کیونکہ افغانستان میں دہشت گرد عناصر دوبارہ پنپ رہیں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عناصر افغان طالبان کی حکومت میں زیادہ کیوں متحرک محسوس ہورہے ہیں۔ اس سوال کا اگر حقیقت پسندانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں کہ افغان طالبان میں بہرحال ایسے عناصر موجود ہے جو کہ مسلح تنظیموں سے ایک ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت بھلے اب اس سے کوسوں دور ہو مگر ان کی سرزمین پر بیٹھ کرپاکستان میں لہو بہانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور موجود ہے۔ پھر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ افغان طالبان کوئی نظم و ضبط کی پابند مسلح تنظیم نہیں ہے۔وہ ایک مخصوص سوچ پر رکھے ہوئے ہے اس لیے وہاں فرمابرداری کا معاملہ اس وقت کی ہے جب تک یہ سمجھا جا رہا ہوں گے
حکم سوچ کے مطابق ہے کہ افغانستان کی ریاست بذات خود بہت کمزور ہے اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر شہر میں قانون کی عملداری کو ممکن بنا سکے کیونکہ مضبوط ریاستی ڈھانچے کے لئے مضبوط معیشت درکار ہوتی ہے جب کہ افغانستان کی معیشت تو امریکی حمایت کے دور میں بھی لرزہ براندام ہی رہتی تھی اور اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے افغان معیشت سے مزید 40 فیصد سکڑ گئی ہے۔ اور اس سکڑتی معیشت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سال کے وسط تک 97 فیصد افغان عوام غربت کو چھو رہے ہونگے۔
اس لیے افغان طالبان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے بلکہ ان سہولیات کو بھی برقرار رکھ سکے جو اشرف غنی دور میں موجود تھی۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ یہ آئیڈیا صورتحال ہے کہ دہشتگرد اپنی نرسریاں قائم کرسکیں۔ اس لیے ایک اندازے کے مطابق افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے جنگجوو¿ں کی تعداد دگنی ہوگئی ہے اور سابقہ افغان حکومت کے فوجی، پولیس اہلکار، انٹیلی جنس افسران اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی سے وابستہ افراد داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ اور داعش میں شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت افغان طالبان کو افغانستان میں داعش منظم طور پر للکار رہی ہے۔
خیال رہے کہ یہ افراد پاکستان کے حوالے سے بھی ایک خاص مخاصمانہ جذبات رکھتے ہیں اور اگر یہ مزید مضبوط ہوئے تو وطن عزیز کو مزید خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو ان خطرات سے کیسے محفوظ بنایا جا سکے؟ تو اس کا حل یہ ہے کہ افغان طالبان اور امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان معاملات کو بہتر بنانے کی غرض سے سفارتی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ افغان طالبان کو اس پر قائل کیا جائے کہ جب تک یہ تصور موجود ہے کہ ان میں سے کچھ عناصر دہشت گردوں سے ہمدردی رکھتے ہیں دنیا ان کی بات نہیں سنے گی اور افغان عوام اس وقت تک مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے اس لئے اس حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کی جائے اور خاص طور پر پاکستان سے کسی انڈرسٹینڈنگ تک پہنچا جائے۔ ماضی کی نسبت صرف الزام دھرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جیسا کہ ماضی میں بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔
اس قضیے کا دوسرا فریق امریکہ ہے۔ امریکہ کو بھی یہ سمجھانا چاہئے اور یہ ممکن بھی ہے کہ امریکہ کو یہ سمجھا دیا جائے کہ افغان طالبان سے سوتیلا سلوک اس خطے میں بدامنی کو بڑھاوا دینے جیسا ہے۔ افغانستان کے معاشی معاملات میں جس تک افغان طالبان کی براہ راست مدد کی جاسکتی ہے وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ضرور کرنی چاہیے بلکہ مختلف امور پر افغان طالبان اور امریکہ کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے افغان طالبان سے اشتراک عمل کے سوال پر کہا تھا کہ ” یہ ممکن ہے ” اور اس ممکن کو ممکن بنانا پاکستان کی ذمہ داری اور ضرورت بھی ہے۔ افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان کی رقم منجمد کرنے یا تقسیم کردینے سے وہاں مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے اس لئے ایسے بے شعور فیصلوں سے صرف نقصان ہی ہوگا۔ پاکستان اس وقت بھی ایک ایسی طاقت ہے جو افغانستان میں صورت حال کو بہتر اور امریکہ کے رویہ کو منصفانہ کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کرسکتا ہے۔