امریکہ میں روئیت ہلال ( چاند دیکھنے) کا مسئلہ
مقامی روئیت ضرور کریں مگر سائنسی تحقیقات سے استفادہ کے علاوہ جب دنیا کے کسی بھی خطے سے سعودی عرب سمیت با وثوق ذرائع سے چاند کی روئیت کی تصدیق ہو جائے تو دین اور امت کے وسیع تر مفاد میں اس کو قبول کر لیا جائے
( تحریر:ڈاکٹر شہباز احمد چشتی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ڈائریکٹر، ضیا ءالکرم اسلامک سنٹر ،نیو یارک)
چند دن قبل مجھے نیو یارک کے ایک بزرگ عالم دین نے ذاتی نمبر سے ٹیکسٹ میسج کیا اور لکھا کہ گلوبل مو ن سائٹنگ کے زیر اہتمام مبادیات دین کو بدلنے کا ایجنڈہ شروع اور ساتھ لکھا کہ نیو یارک میں چند دنیا داروں نے علمائے دین کو مجبور کیا ھے کہ ہمیں ہر حال میں رمضان سے پہلے ایک تاریخ چاہیے۔ حضرت مفتی صاحب کو اپنے علماءساتھیوں کے بارے میں یہ بد گمانی بالکل زیب نہیں دیتی کہ چند دنیا داروں نے علماءکو مجبور کیا ہے۔ ساتھ ہی ان کو مبادیات دین کو بدلنے کے ایجنڈے کی سازش نظر آنے لگی ہے۔ میرے نزدیک ایک عالم، محقق یا مفتی کو اس مسئلے میں جس میں متقدمین و متا خرین علماءکی آراءاور دلائل موجود ہیں دین بدلنے کا طعنہ دینا نہ صرف غیر علمی رویہّ ھے بلکہ علم و تحقیق سے دوری کا سبب ہے۔
اب میں نفس مسئلہ کو بیان کرتا ہوں۔ میں گذشتہ بارہ سال سے نیو یارک امریکہ میں رہ رہا ہوں۔ پہلے پانچ، چھ سال آغاز رمضان و عید کے حوالے سے جو حشر میں نے دیکھا ،اس و¿کی تفصیلات اور مسلمانوں کا باہم اختلاف ناقابل بیان ہے۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک ہی گھر میں خاوند عید منا رہا ہوتا تھا تو بیوی نے روزہ رکھا ہوتا تھا یا اولاد میں سے کوئی سکول گیا ہو تا تھا تو کوئی عید منا رہا ہو تا تھا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ تھی کسی نے سعودی عرب کے اعلان کے ساتھ ہی آغاز رمضان کر کے ان کے ساتھ ہی عید منا لی تو کئی لوگوں کو مقامی علماءنے روک رکھا ہوتا ہے کہ مقامی طور پر چاند نظر آئے بغیر ہم آغاز رمضان یا اعلان عید نہیں کریں گئے ۔
بد قسمتی سے امریکہ میں روئیے ہلال کا کوئی مضبوط، منظم یا متفق پلیٹ فارم یا کمیٹی نہیں ہے ،کچھ علماءنے ایک کمیٹی بنا رکھی ھے جو اکثر چلّی، کینڈا یا ساو¿تھ امریکہ سے شہادتوں کا انتظار کرتے ہیں اور اسوقت تک نیو یارک میں رات کا کچھ حصہ گذر چکا ہوتاہے جس سے کچھ لوگوں کا یا تو روزہ خراب ہو جاتا ھے یا اعتکاف و عید وقت پر نہیں ہوتے۔
طرفہ تماشا یہ کہ ایک ہی علاقے میں دو مختلف مسالک کی مساجد میں سے ایک میں آغاز رمضان و اعلان عید سعودی عرب کے ساتھ جبکہ دوسری مقامی روئیت کا انتظا ر کرتی ہے۔ اس طرح مقامی امریکن کمیونٹی یا سکولوں میں الگ جگ ہنسائی ہوتی اور دین کا مزا ق اڑایا جاتا ھے کہ مسلمان کسی ایک نقطہ ءپر کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ کچھ دوستوں کی کو ششوں سے اب نیو یارک سٹیٹ نے عید الفطر اور عید الا ضحیٰ کی سرکاری چھٹی کا اعلان کر کے اس کو کیلنڈر کر رکھا ہے مگر پھر بھی چند ایک امام صاحبان مقامی روئیت ھلال پر نہ صرف زور دیتے ہیں بلکہ عالمی روئیت ھلال (Global moon sighting) کو دین میں تبدیلی کے مترادف جانتے ہیں۔
راقم الحروف نے مقامی تجربے کے بعد اور مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر اس موضوع پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اہل سنت کے چار فقہی مکاتب فکر میں سے احناف، مالکیہ، حنابلہ میںسے اکثر فقہاءو ائمہ عالمی روئیت ھلال (global Moon sighting )کے قائل ہیں صرف شوافع مقامی روئیت ھلال (local moon sighting)کے قائل ہیں۔ حتی کہ برصغیر پاک و ہند میں امام اہل سنت و الجماعت امام احمد رضا بریلوی اور بہار شریعت کے مصنف مولانا امجد علی عالمی روئیت ھلال کے قائل ہیں بلکہ دیوبند مکتب فکر کے فتاوی بھی عالمی روئیت کے حق میں ہیں۔ چنانچہ میں نے اس مسئلہ پر دو تین اجلاس اور ایک کنونشن میں بھی شرکت کرکے علمائے کرام کے سامنے یہ نقطئہ نظر رکھا بلکہ ایک کنونشن اپنے ادارے ضیا ءالکرم اسلامک سنیٹر بروکلین نیو یارک میں بھی منعقد کیا۔ جن علماءنے اس میں شرکت کی ان میں سے اکثریت میرے نقطئہ نظر کی حامی ہو گئی۔
الحمد اللہ اب چند سالوں سے بروکلین نیو یارک کی اکثر مساجد اور اسلامک سنیٹر ز میں عالمی روئیت ھلال کے تحت آغاز رمضان اور اعلان عید اکٹھے کرتے ہیں۔ مگر ابھی تک مذکورہ بالا مفتی صاحب کی طرح چند ایک علماءنہ صرف مقامی روئیت پر زور دیتے ہیں بلکہ عالمی روئیت ھلال کو دین کی مبادیات میں تبدیلی بھی گردانتے ہیں۔
اب میں عالمی روئیت ھلال کے حق میں اپنے دلائل پیش کرتا ہوں۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے جس کے راوی حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ “ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اگر تم پر ابر چھا جائے تو شعبان کے تیس دنوں کی تعداد پوری کرو۔
چند ایک مقامی علماءمقامی روئیت ھلال پر زور دینے کےلئے اس حدیث مبارکہ کا بار بار حوالہ دیتے ہیں حالانکہ اس حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق روئیت کا حکم ارشاد فرمایا ہے اس کو ہر علاقے یا ملک کے لئے خاص نہیں فرمایا
اصول یہ ھے کہ دین کے مطلق حکم کو بغیر کسی قرینہ کے اپنی ذاتی رائے سے مقید نہیں کیا جا سکتا۔
امام محمد شوکانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب نیل الاوطار طبع بیروت میں لکھتے ہیں۔” احادیث روئیت کا اعتبار کسی خاص شہر والوں کے ساتھ مخصوص نہیں ھے بلکہ یہ خطاب تمام مسلمانوں کے لئے ھے لہٰذاان احادیث کی روشنی میں کسی ایک ملک والوں کی روئیت کا دیگر ممالک والوں کے لئے لازم ہونے پر استدلال کرنا واضح ہے” جو علماءو آئمہ وحدت روئیت کے قائل ہیں ان کے طرز استدلال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اس تخصیص کے بھی قائل نہیں کہ صرف مکہ مکرمہ کی روئیت کو معیار قرار دے کر اسے معتبر مانا جائے۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں چاند کی روئیت ہو جائے تو سارے عالم اسلام کےلئے اس کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ احادیث میں مطلق روئیت کا حکم ھے (اس میں مکہ مکرمہ کی تخصیص نہیں لیکن عموم میں مکہ مکرمہ بھی شامل ہوگا)۔
امام اہل سنت ام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ جلد چہارم میں لکھا ہے” رمضان المبارک اور عید کے چاند میں فاصلہ کا اعتبار نہیں ہے مشرق میں چاند کا نظر آنا مغرب والوں پر حجت (دلیل) ہے، اسی طرح اس کے بر عکس بھی۔
مولانا امجد علی رحمتہ اللہ علیہ نے بہار شریعت جلد دوم میں لکھا ہے” ایک جگہ چاند نظر آ جائے تو وہ سارے جہان کےلئے ہے
” دیو بند کے عالم مولانا رشید احمد گنگوہی ترمزی شریف کی شرح الکوب الدری میں لکھتے ہیں۔ ”اگر کلکتہ (ہندوستان) میں چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا اور مکہ میں خمیس (جمعرات) کی رات کو، اور کلکتہ والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ مکہ میں رمضان خمیس (جمعرات) سے شروع ہو چکا ہے تو جب ان کو اس بات کا پتہ چلے گا تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ عید مکہ والوں کے ساتھ منائیں اور پہلا روزہ قضا کریں“
جبکہ دیو بند کے ہی ایک اور عالم مولانا اشرف علی تھانوی کا فتویٰ موجود ہے کہ
”اگر مکہ یا مدینہ میں شرعی ثبوت کے ساتھ خبر آجائے کہ وہاں یہاں ( ہند)سے پہلے چاند ہوا ہے تو ہندوستان والوں پر اس خبر کی وجہ سے ایک روزہ رکھنا فرض ہوگا“
کیا ان مذکورہ بالا علماءوائمہ اور دیگر سینکڑوں علماءنے بھی دین کے مبادیات میں تبدیلی کی ہے جنہوں نے کہا ھے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور روئیت کا حکم مطلق ہوگا ۔
مقامی روئیت ھلال کے داعی حدیث کریب کا حوالہ دیتے ہیں فقہائے احناف نے اس کی تاویل کی ہے حضرت کریب کا عبداللہ ابن عباس سے سوال کرنا کہ کیا آپ امیر معاویہ اور شام والوں کی روئیت کا اعتبار نہیں کریں گئے، دلیل ہے کہ صحابہ ءکرام بلاد بعیدہ کی روئیت کا اعتبار کرتے تھے مگر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث میں روئیت عامہ کو اپنے اجتھاد سے خاص سمجھا اور حیرت اس عالم یا مفتی پر ہے جو شافعی ائمہ کی بیان کردہ اس روایت کو اپنے حنفی فقہاءکے استدلال کے سامنے لاتا ھے حالانکہ یہ روایت فقہائے احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کی سامنے بھی تھی مگر انہوں نے حدیث رسول صل اللہ علیہ و سلم کو مطلق رکھتے ہوئے عالمی روئیت کا قول اختیار کیا ہے۔
امریکہ و کینیڈا بھر میں رہنے والے اکثر علما ءو ائمہ نے مورگیج یعنی سود پر مسجد کے لئے جگہ خریدنے یا ذاتی رہائش کا مکان لینے کے فتوی جاری کر رکھے ہیں جس پر نص قطعی موجود ہے اور قرآن جسے اللہ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیتا ہے مگر اس آیت کی تاویل کرتے ہوئے کہا گیا کہ غیر اسلامی ملک میں مسجد کی جگہ یا ذاتی رہائش کا مکان بینک سے سود لئے بغیرممکن نہیں لہٰذا اس کی اجازت ہے ( راقم الحروف بھی اسم نقطئہ نظر کا قائل ھے ) تو گلوبل مون سائٹنگ پر علمائے متقدمین و متاخرین کی آراءموجود ہیں تو پھر امریکی اور مغربی مسلمانوں کے اتحاد کےلئے عالمی روئیت کے اصول کو کیوں نہیں مانا جاتا اور بھی بہت سے دلائل ہیں مگر میں مضمون کی طوالت کے خوف سے اس اپنا موقف اس بات پر ختم کر رہا ہوں کہ مقامی روئیت ضرور کریں مگر سائنسی تحقیقات سے استفادہ کے علاوہ جب دنیا کے کسی بھی خطے سے سعودی عرب سمیت با وثوق ذرائع سے چاند کی روئیت کی تصدیق ہو جائے تو دین اور امت کے وسیع تر مفاد میں اس کو قبول کر لیا جائے۔
Moon Sighting in USA, Shahbaz Ahmad Chishti