مہربانو قریشی کی شکست کی وجوہات
ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ 157 میں 16اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں دو گدی نشینوں کی اولاد کے درمیان مقابلہ تھا تحریر (اظہار عباسی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر اولیائے کرام کی سرزمین ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ 157 میں 16اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں دو گدی نشینوں کی اولاد کے درمیان مقابلہ تھا پیپلز پارٹی کے امیدوار اورسابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی موسی گیلانی نے سابق وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی کو شکست سے دوچار کیا
سید علی موسی گیلانی نے 107327 ووٹ جبکہ مہر بانو قریشی نے 82141ووٹ حاصل کئے یوں شاہ محمود قریشی اپنے آبائی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ نشست شاہ محمود قریشی کے بیٹے مخدوم زین قریشی نے ملتان کی صوبائی حلقہ پی پی 217 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سیلمان نعیم کو شکست دینے کے بعد خالی کی تحریک انصاف کی امیدوار مہربانو قریشی کو اتنی بھاری اکثریت سے شکست کو پارٹی کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے اس موقع پر جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 6سیٹوں پر الیکشن جیت کر ریکارڈ اپنے نام کر چکے تھے وہاں ان کی اپنی پارٹی کے وائس چیئرمین کو آبائی نشست پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.مہربانو قریشی کی شکست کی کیا وجوہات بنی وہ کچھ یوں ہیں.
سب سے پہلے حلقہ این اے 157 ملتان 4 کے ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا تو مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے آبائی حلقے میں تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار کے لئے اپنی بیٹی مہر بانو قریشی کا اعلان کیا اس فیصلے سے خود ان کی پارٹی کے مقامی عہدے داروں اور کارکنوں نے سخت تنقید کی اور کہا کہ تحریک انصاف ہمیشہ موروثی سیاست کے خلاف کھڑی رہی ہے اور یہ فیصلہ پارٹی کو خاصا نقصان پہنچائے گا اس کے برعکس شاہ محمود قریشی نے اپنے فیصلے کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ حلقے میں تحریک انصاف کا کوئی اور مضبوط امیدوار نہیں ہے دوسرے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا
دوسری بڑی وجہ حلقے کے عوام سے رابطہ نہ رکھنا تھا حلقہ این اے 157 کا 90فیصد علاقہ دیہات پر مشتمل ہیں جہاں لوگ ہر کسی کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں ساتھ دیتے ہیں لیکن مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کے فرزند حلقے کے لوگوں سے دور رہے بدلتے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا سوشل میڈیا کے دور میں بھی عوام کی نبض شناسی نہ کر سکے عاجزی و انکساری کا عنصر فراموش کر دیا حلقے کے لوگ براہ راست رابطہ نہیں کر سکتے تھے بڑی بڑی برادریوں کے لوگوں کو ملاقات کے لیے پہلے ملازمین سے ملنا پڑتا تھا قومی اسمبلی کے اسی حلقے میں شامل صوبائی حلقے میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی اسمبلی کا عوام سے رابطہ برائے نام تھا جس کی وجہ سے 264پولنگ اسٹیشنز میں زیادہ تر شکست کا سامنا کرنا پڑا
تیسری بڑی وجہ یہ تھی کہ بلا شبہ مہر بانو قریشی اچھی امیدوار تھیں ان کی شخصیت جازب نظر .پر اثر . انداز بیان لاجواب ہے لیکن انہیں ان کے والد مخدوم شاہ محمود قریشی نے خواتین کے ساتھ کارنر میٹنگز اور جلسوں تک محدود کر دیا اور مردوں کے ساتھ کارنر میٹنگز. جلسوں کی ذمہ داری خود سنبھال لی جس کا کافی نقصان ہوا
ملتان کی اس سیٹ پر اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خود کھڑے ہوتے تو شاہد نتائج مختلف ہوتے مہربانو قریشی کو بلے کے نشان کی وجہ سے 82141 ووٹ ملے ورنہ اگر مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم زین قریشی کی 4سالہ کارگردگی دیکھی جاتی تو شاہد حاصل کردہ ووٹوں سے نصف بھی نہ ملتے
دوسری طرف پیپلزپارٹی کے امیدوار سید علی موسی گیلانی جنہیں پی ڈی ایم کی حمایت حاصل تھی 2018 کے الیکشن میں شکست کے باوجود حلقے کے عوام سے رابطہ نہ چھوڑا وہ ہر کسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے علی موسی گیلانی نے اپنے ایم این اے کے دور میں حلقے میں بےشمار کام کرائے جو مخالفین 40برس میں بھی نہ کرا سکے.
سابق وزیر اعظم اور موجودہ سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی نے عاجزی و انکساری کا دامن نہ چھوڑا اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ 10برس سے پنجاب میں بے حد کمزور پوزیشن میں ہے سید یوسف رضا گیلانی نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کی بدولت 16اکتوبر 2022 کو پنجاب میں ایک کمزور پیپلز پارٹی کو ایک مضبوط پیپلز پارٹی بنا دیا حلقہ این اے 157 میں اپنے بیٹوں. جیالوں کے ساتھ ان نتھک محنت کی ایک موقع ایسا آیا کہ علی موسی گیلانی کو خواتین کی طرف سے کمزور پوزیشن کا سامنا تھا تو پھر ان کی بہن فیضہ گیلانی اور صوبہ سندھ سے پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما سابق ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا نے محاذ کو سنبھالا اور علی موسی گیلانی کو فتح سے ہمکنار کیا
Meher Bano Qureshi