سیاسی مستقبل ؟خواجہ آصف نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا
سروسز ایکٹ کی منظوری کے بعد درون خانہ پارٹی اختلافات پر خاموشی کے بعد بالآخر بول پڑے، عہدے چھوڑنے اور سیاست سے کنارہ کشی کو بھی خارج ازامکان قرار نہیں دیا
اسلام آباد (اردونیوز ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف کی پارٹی میں بعض قائدین کے ساتھ اندرونی اختلافات کی خبریں کچھ عرصے سے زیر گردش ہیں ۔ اس دوران خواجہ محمد آصف جو کہ دبنگ بولنے والے رہنماکے طور پر بھی جانے جاتے رہے، خاموش رہے۔ ان کی خاموشی کی وجہ سے زیر گردش خبروں کے حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں تاہم ڈان ٹی وی کو دئیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں خواجہ آصف نے خاموشی توڑ دی ۔
اگرچہ کھلے الفاظ میں نہیں بلکہ بین السطور میں یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس فیصلے کو اپنے پاس محفوظ بھی کر چکے ہیں ۔
خواجہ آصف نے عندئیہ دیا کہ وہ سیات میں بیک بنچوں پر بیٹھ سکتے ہیں اور اپنے پاس موجود پارٹی اور پالیمانی عہدے چھوڑ بھی سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیاست میں تیس سال بھرپور سیاست کی ۔ اگر انہوں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو ساتھ سیاست کو بھی خیر باد کہہ دیں گے ۔
خواجہ آصف کا اپنے ٹی وی انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ للہ تعالیٰ کا میرے اوپر بہت کرم ہے۔ میری تمام خواہشات بھی پوری ہوئی ہیں۔ حالانکہ بہت ہی محدود سے خواہشات ہیں۔ میری پارٹی اور میرے ووٹرز نے میرا بہت ساتھ دیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب آہستہ آہستہ مجھے یہ کام ختم کرنا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں میں اپ اینڈ ڈاﺅن ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا پارٹی چھوڑنے یا سیاست چھوڑنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سیاسی پارٹیوں میں اختلافات چلتے رہتے ہیں۔ اور یہ ایک عام روٹین کی بات ہوتی ہے۔ پارٹی میں فیکشنز ہوتے ہیں۔ لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہیں۔ لیکن قیادت کا جو فیصلہ ہوتا ہے اسے ماننا پڑتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سیاسی ورکر کو ان معاملات کا سامنا کرناچاہئے۔ بلکہ بڑی بہادری کے ساتھ ان معاملات کا سامنا کرنا چاہئے۔
لندن میٹگنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بندہ قسم کھائے تو اسے مشتہر بھی نہیں کرناچاہئے۔ لیکن میں نے جب واپس آ کر پارٹی کو فیصلہ سنایا تو اس وقت پانچ لوگ بیٹھے ہوئے تھے جو وہاں اس وقت فیصلے کے وقت موجود تھے۔ اور انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھنے میں اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو مجھے تصحیح کر دی جائے۔ لیکن ان سب نے کہا کہ یہی فیصلہ ہوا تھا۔ باقی سیاسی پارٹیوں میں اس قسم کے فیصلے چلتے رہتے ہیں۔
خواجہ آصف نے پارٹی رہنما و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ناراضی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں پرائمنسٹروں کا مسئلہ ہے۔ یہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے، وہ میاں نواز شریف صاحب کی بیٹی ہے اور میرے لئے بہت ہی متحرم ہے۔ اور میری بیٹی کی طرح ہے۔ یہ معاملہ میاں صاحب کی فیصلہ تک چھوڑنا چاہتا ہوں۔ وہ پارٹی کا کوئی ایشو نہیں وہ میاں صاحب کی فیصلہ کا اپنا مسئلہ ہے۔ اس پر میرا کمنٹ بنتانہیں ہے۔ اور پورے واقعہ میں مریم نواز کی میرے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
مسلم لیگ(ن) کو دو جماعتوں میں تقسیم ہونے کے حوالے سے کہا کہ میاں نواز شریف کی قیادت میں پوری پارٹی متحد ہے۔ اور ہمارا آپس کا کوئی اختلاف نہیں۔سیکنڈ ،تھرڈ کی پوزیشن میںورکروں میں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن میاں نواز شریف کی قیادت میں ہم پوری طرح متحد ہیں۔ میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کے روح رواں ہیں۔ پچھلی تین دہاﺅں سے اور آج جس مقام پر ہماری پارٹی اور ہم کھڑے ہیں۔ پرفارمنس کے لحاظ سے،ڈلیوری کے لحاظ سے سیاسی لحاظ سے یہ سب کچھ میاں نواز شریف ہی محنت کا نتیجہ ہے اور میاں نوازشریف اور شہباز شریف کا رشتہ اسی طرح مضبوط ہے جیسے بھائیوں کا ہوتا ہے۔ اس کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
پنجاب حکومت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ سیاسی جوڑ توڑ بنتے اور بگڑتے دیر نہیں لگتی اور الائنس کی جو مختلف جماعتیں ہیں جیسے ایم کیو ایم ،پی ایم ایل ،پی ایم ایل (ق) ہے، سب الائنس کرنے میں خوش ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مستقبل میں ہماری کوئی بات چلتی ہے یہ کوئی ایسی شروعات ہوتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاسی طور پر ممکن بات ہے یہ کوئی ناممکن نہیں۔
PMLN party differences and future of Khawaja Asif political career