عدلیہ اور ایسٹبلشمنٹ دونوں کٹہرے میں
عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ہم مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے ہیں، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے، قاضی فائز عیسی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ خان آفریدی،جسٹس جمال خان مندخیل جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں
میں نے وزیر اعظم، وزیر قانون اٹارنی جنرل سے انتظامی طور پر ملاقات کی، چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی، وزیر اعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لیے وہ انتظامیہ کے سربراہ ہیں،چیف جسٹس سپریم کورٹ
اسلام آباد ( اردو نیوز )اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کی وجہ سے عدلیہ اور ایسٹبشلمنٹ دونوں ایک ساتھ کٹہرے میں آکھڑی ہوئی ہیں اور سپریم کورٹ کے فل بنچ کو عدلیہ کی آزادی اور ایسٹبلشمنٹ کے حدود بارے بڑا فیصلہ کرنا ہوگا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ خان آفریدی،جسٹس جمال خان مندخیل جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق خط لکھا تھا، سماعت کا آغاز کیسے کریں؟ پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، ہم نے کیسز فکس کرنے ک لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، ہم دنیا والوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، ہمیں خود پر انگلی اٹھانی چاہیے، میں کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا، دوسروں پر انگلی اٹھانے سے بہتر خود کو دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اب ایک نیا کام شروع ہو گیا ہے وکیل ہمیں کہتے ہیں ازخود نوٹس لیں، وکیل کہہ رہے ہیں کہ سوموٹو لیں، ان وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بات واضح کرتا چلوں کی عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
حامد خان نے کہا کہ بار ایسو سی ایشن تو سو موٹو کا کہہ سکتی ہے جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم ا?پ کی بات نہیں کر رہے ہیں ا?پ اپنے پر نا لیں، چار سال تک سپریم کورٹ میں فل کورٹ نہیں ہوئی، اس وقت ساری بارز اور وکلا کہاں پر تھے؟
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتوں کو مچھلی مارکیٹ نہیں بنانا چاہیے، پاکستان میں درجنوں بار ایسو سی ایشنز ہیں مگر ہمارا تعلق سپریم کورٹ بار سے ہے، دوسری باڈی ہے پاکستان بار کونسل یہ بھی منتخب لوگ ہیں جنہیں آپ نے چنا ہے، انہیں ہم نہیں منتخب کرتے اس لیے ہم ان کی قدر کریں گے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہا ان کو بھی مان لو کو آپ کا مخالف ہے۔
قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طور پر نہیں ملتا۔
چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 26 تاریخ کو ہمیں ہائی کورٹ کے ججز کا خط ملا، اسی روز ہی افطاری کے فوری بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت تمام ججز سے ڈھائی گھنٹے ملاقات ہوئی، اگر ہم اس بات کو اہمیت نہ دیتے تو فوری چیف جسٹس ہاو¿س میں فل کورٹ اجلاس نہ بلاتے، انہوں نے جرمن سیاستدان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ’گوئبلز‘ کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں، عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ ہم مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے ہیں، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے، میں نے وزیر اعظم، وزیر قانون اٹارنی جنرل سے انتظامی طور پر ملاقات کی، چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی، وزیر اعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لیے وہ انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔
Islamabad Hight Court judges case