عمران خان کی ضمنی الیکشن میں چھ حلقوں میں ریکارڈ کامیابی
عمران خان ضمنی الیکشن میں کامیابی کو اپنے مجوزہہ لانگ مارچ کی کال کےلئے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ اس بات پر سب کی نظریں مرکوز ہیں
نیویارک (اردو نیو) پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان نے16اکتوبر کو نیوالے ضمنی الیکشن میں سات میں سے چھ قومی اسمبلی کے حلقوں میں کامیابی حاصل کرکے ریکارڈقائم کر دیا ہے ۔ سال 2018میں ہونیوالے جنرل الیکشن میںعمران خان نے پانچ حلقوں میں فتح حاصل کی تھی اور یوں ضمنی الیکشن میں چھ حلقوں میں کامیابی حاصل کرکے عمران خان نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ عمران خان جو کہ سات حلقوں سے بیک وقت قومی اسمبلی کے امیدوار تھے ، نے کراچی کی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کی اور وہاں پیپلز پارٹی کے حکیم بلوچ فاتح قرار پائے ۔
عمران خان نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی سیاسی مقبولیت عروج پر ہے تاہم یہ سیاسی مقبولیت انہیں دوبار اقتدار میں لائے گی یا نہیں؟اس سوال کے جواب میںسیاسی پنڈتوں کاکہنا ہے کہ اگرچہ عمران خان ، چھ حلقوں میں کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن نمبر گیم میں ان کی جماعت تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عمران خان پہلے ہی رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا۔ وہ ایک وقت میں ایک ہی حلقے سے رکن قومی اسمبلی ہو سکتے ہیں ۔
لہٰذا انہیں ضمنی الیکشن میں جیتنے والی سیٹیں چھوڑنا ہوں گی اور الیکشن قواعد کے مطابق الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر ان نشستوں پر ضمنی الیکشن کروانے ہوں گے
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن جیتنے کا عمران خان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی طور پر مقبول ترین لیڈر ہیں ۔ اس سیاسی صورتحال کو وہ اپنی مجوزہ لانگ مارچ کی کال کے لئے کیسے استعمال کرتے ہیں، اس بات پر سب کی نظریں مرکوز ہیں ۔ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے باوجود ابھی تک عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی کال نہیں دی گئی ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن میں کراچی اور ملتان میں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کے مقابلے میں قومی اسمبلی دو نشستیں حاصل کرکے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اس کامیابی کی وجہ سے مرکز میں حکمران اتحاد کو دو مزید نشستوں کی برتری حاصل ہو گئی ہے ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ضمنی انتخابات میں حاصل کیے گئے ووٹوں کی شرح
پی ٹی آئی: 49.5 فیصد
مسلم لیگ ن: 13.6 فیصد
پیپلزپارٹی: 12.8 فیصد
اے این پی: 8.9 فیصد
جے یو آئی:6.1 فیصد
ٹی ایل پی: 3.9 فیصد— Rizwan Ahmed Ghilzai (@RizwanGhilzai) October 16, 2022
اردو نیوز