حفیظ کاشمیری مرحوم کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت
حفیظ کاشمیری ایک ایسا فلسفی تھا کہ جو انسانوں کو راستہ دکھا کر معاشرے کی برائیوں سے بچانا چاہتاتھا، اپنےان حروف جن سے انہوں نے عمر بھر بے وفائی نہیں کی ، ان حروف کی شکل میں زندہ رہیں گے
حفیظ کاشمیری کے حرف انسانیت کا پیغام دیتے رہیں گے، کاغذ اور قلم سے رشتے کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا، ان کی صاحبزادیاںانکی غیر مطبوعہ کتب ہیں،فرخندہ بھابھی کے ساتھ رفاقت مثالی تھی۔مقررین
معروف و سینئر صحافی مسعود حیدر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کاشمیری فیملی کے ارکان کے علاوہ نسیم گلگتی ، پیپلز پارٹی امریکہ کے مقامی قائدین خالد اعوان اور سرور چوہدری کی خصوصی شرکت
طاہر خان اور کامل احمر کا شرکاءکی آمد پر اظہار تشکر، مشیر طالب نے گذشتہ اجلاس کی رپورٹ پیش کی ، سلیم احمد ملک نے نظامت کے فرائض انجام دئیے ، میاں شبیر گل نے مرحوم کے لئے فاتحہ خوانی اور دعا کروائی
نیویارک (اردو نیوز ) حلقہ اربات ذوق(رجسٹرڈ) نیویارک کا اجلاس اس کے مرکزی دفترمیں منعقد ہوا۔ حسب سابق ایک پروقار تقریب کے طور پر منعقدہوا جس میں اہل ذوق اور شائقین علم و ادب کی کافی بڑی تعداد شریک ہوئی ۔حلقہ کی روایت سے قدرے انحراف کرتے ہوئے پہلا حصہ جو کسی معروف اسکالر، علمی ، سماجی ، تعلیمی ،معاشرتی یا سیاسی شخصیت کاتعارف اور ان سے بات چیت پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرے حصہ میں مشاعرے کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس بار اجلاس صرف پہلے ہی حصے پر مشتمل رہا۔ مشہورو معروف مصنف، اسٹوری رائٹر و بیباک کالم نگار حفیظ احمد کاشمیری جو بات فروری کو طویل علالت کے بعد مالک حقیقی سے جا ملے ، کی یاد میں کیاگیاتھا۔
جلسہ کی ابتداءکامل احمر نے مہمانوں کا استقبال اور ان کی حلقہ سے محبت کے شکریہ کے ساتھ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم آج جلسے کے پہلے ہی حصہ پر اکتفا کریں گے اور یہ حصہ حلقے کے دیرینہ اور شریف النفس ساتھی حفیظ کاشمیری مرحوم کے لئے ہی وقف کریںگے۔ مشاعرے کی محفل نہیں ہو سکے گی۔ کامل احمر نے بتایا کہ حفیظ کاشمیری سے ان کی ملاقاتیں گو کہ چند ہی رہی ہیں لیکن ان چند ملاقاتیں میں انہوںنے مجھ پر جو تاثر چھوڑ ،بیان نہیں کرسکتا۔ حفیظ کاشمیری ایک منکسر ال مزاج، وضعدار اور احساس مندانہ جذبے سے بھر پو انسان تھے۔ حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ و ممبر ہونے کے ناطے ، تقریب کا انعقادان کا حق بھی بنتا ہے۔ انہوں نے حفیظ کاشمیری کے فیملی اور ان کے فیملی فرینڈ نسیم گلگتی کا بھی شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے یہ پروگرام کیا جا سکا۔ کامل احمر نے بعد میں سلیم احمد ملک کو مائیک دیتے ہوئے انہیں تقریب کوباقاعدہ شروع کرنے کی دعوت دی۔
ملک سلیم نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسعود حیدر، اخبار ڈان ، پاکستان کے سینئر صحافی سے جلسے کی صدارت کی درخواست کی۔ مہمانان خصوصی کےلئے نسیم گلگتی ، نیو جرسی سے آئے ہوئے سیاسی شخصیت کے حامل خالد اعوان اور نیو یارک کے معروف سماجی رہنما سرور چوہدری سے رونق افروزی کی درخواست کی۔
سلیم احمد ملک کی استداءپر مشیر طالب نے گذشتہ اجلاس کی رپورٹ نذر جلسہ کی ۔ صدر مجلس ہذا مسعودحیدر نے رپورٹ پر اپنے دستخط ثبت کر کے سلیم احمد ملک کی دعوت پر ابتداءفلم میکر، آرٹسٹ اور افسانہ نگار ممتاز حسین نے ایک مختصر سا افسانہ جو حفیظ کاشمیری کی تین کتابوں ،اس دور کا سقراط، یتیم امہہ اور بچے مرے استاد کے حوالے سے لکھاتھا ، پیش کیا۔
محترمہ قانع ادا نے اس تقریب سے متعلق اپنے کچھ اشعار پیش کئے۔ سلیم احمد ملک نے محسن ظہیر جن کا تعلق پاکستان کےچینل فائیو ٹی وی اور اخبار ” خبریں“ سے ہے اور نیویارک میں اخبار ”اردو نیوز“ جو ان کی سرپرستی میں شائع ہوتا ہے۔ کو دعوت اظہار خیال دی۔ انہوں نے فرمایا کہ حفیظ کاشمیری مرحوم ایک منکسر المزاج اور غیر متنازعہ شخصیت تھے۔ ان کی غیر وجودی ہو جانے سے ایک خلاءپیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے بھٹو خاندان سے ان کے والہانہ جذبات کا ذکر کیا۔ ملک سلیم پھر مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی کہکشاں حفیظ کو مائیک پر بلایا تا کہ وہ اپنے مرحوم باپ سے متعلق اپنے احساسات کا اظہار اگر چاہئے تو کر سکے۔ رقت طاری ہو جانے کی وجہ سے چند الفاظ سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکی۔ ارشد خیالی نے مرحوم کی شخصیت کی سادگی اور ان کی محترمہ بینظیر بھٹو سے برادرانہ تعلقات اور جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم سادہ لوح اور وضعدار مخلص انسان تھے۔ راجہ رزاق نے بھی حفیظ کاشمیری مرحوم کے بارے میں اسی قسم کے ملے جلے جذبات و خیالات کا اظہار کیا۔ وکیل انصاری نے ا نہیں ایک غیر متنازعہ شخصیت قرار دیتے ہوئے مرحوم سے پاکستان میں ان سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا۔ مرحوم کی سب سے بڑی بیٹی صنم حفیظ نے اپنے والد مرحوم کے بارے میں اپنے جذبات و احساسات کا اچھے طریقے پر اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مرحوم گھر میں ہم سب سے متقاضی ہوتے تھے کہ ہم سب پاکستانی کے ناطے اپنے پاکستانی ہونے پر ہمیشہ فخر کریں اور اپنی قومی زبان اردو کو نہ ایک پاکستانی کا فخریہ اثاثہ ہے اپنی زبان ہمیں بھولنا نہیں چاہئے۔
پروفیسر محترمہ خالدہ ظہور نے مرحوم پر ایک مختصر مضمون جو انہوں نے لکھا تھا پڑھا جس میں ان کی شخصیت پر اظہار خیال کیاگیاتھا۔ انہوں نے حفیظ کاشمیری کی کتابوں ” اس دور کا سقراط “ ” یتیم امہ “” اور“ بچے میرے استاد“ کا ذکر کیا۔ واصف حسین واصف نے بھی اپنا لکھے ہوئے مضمون میں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ موت برحق سہی مگر انسان مرتا نہیں ہے۔ وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ لوگ اپنی تجاویز ، مضامین ، اپنی کتابوں اور اپنے معرکوں میں زندہ رہتے ہیں اور آج تک زندہ ہیں۔ مرحوم کی وسطی بیٹی صنوبر حفیظ نے مغلوب الجذبات اور رندھی ہوئی آواز میں اپنے باپ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ چاہنے لگے تھے کہ میں اب شاعری پر دھیان دوں اور شعر کہنا شروع کروں۔ یہاں انہوں نے دو چار مصرعے بھی سنائے۔
مرحوم کے بھائی کی بیٹی جو پاکستان سے شرکت کے لئے آئی تھی نے بھی اپنے مرحوم چچا کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر یونس شررنے مرحوم کے اخلاق و کردار کو سراہا۔ ان کی شخصی اور تعلیمی خوبیوں ،ذہن رسا اور تخلیق قابلتیوں کاذکر کر کے انہیں خراج تحسن پیش کیا۔ بھٹو فیملی سے ان کی وابستگی اور تعلقات کا ذکر خیرکیا۔
سرور چوہدری نے مرحوم حفیظ کاشمیری کو ایک عظیم اور مثالی انسان قرار دیا۔ اس مرحلے پر اب مشیرطالب نے مرحوم حفیظ کاشمیری کے اس سانحے پر لکھی گئی اپنی ایک نظم پیش کی۔ محترمہ نصرت شاہ نے بھی اس دکھ بھرے سانحے پر اپنے کلام سے کچھ اشعار پیش کئے۔حفیظ کاشمیری کے قریبی ساتھی اور فیملی فرینڈ نسیم گلگتی نے بھی مرحوم سے اپنے ذاتی معاملا اور خیالات کا اظہار کیا۔
خالد اعوان نے مرحوم سے متعلق اپنے تعلقات اور نوعیت کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ گو کہ ان کاتعلق پاکستانی پیپلز پارٹی سے نہیں تھا اور نہ وہ کوئی سیاسی آدمی تھے مگر وہ بہت ہی زیادہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب تھے۔ بینظیر جب بھی نیویارک آئیں۔ اپنے بھائی حفیظ کاشمیری کے گھر ضرور جاتیں۔ اور فیملی سے ملاقات کرتیں۔
طاہر خان نے مرحوم سے اپنے تجربے اور خیالات کا اچھے پرائے میں ذکر کیا۔ صدر مجلس مسعودحیدر نے اظہارخیال کے بعد اختتامی کلمات کہے۔ میاں شبیر گل نے مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی اور دعا کروائی ۔
اجلاس میں ریٹا کوہلی ، زرافشاں ، مامتا چہل ،ڈاکٹر نزہت شاہ ،سامی ریاض ، طاہرہ حسین ،نصرت زبیر، حیات مہر ،فیاض چودھری ،سید وجیح الدین ،حبیب یوخان ،حاجی محمود ،شبیرگل ،عبدالستار راجہ، ایم مشتاق ، صادق محمد، سہیل خان، شاہد کامریڈ، محمد ادری، افتخار شاہ ، سید زی شہباز،ارشد چودھری ،عبدالطیف جاویداں ،محمد ارشد ، جاوید ملک ، میاں جاوید ،جاوید بٹ ، لیاقت مین ہٹن ، فیاض کھتری ،عروج نصرت اینڈز بیر خان فیملی ، زرینہ مہر،آصف بیگ اوراقبال مغل سمیت دیگر نے شرکت کی ۔