بائیڈن کے امیگریشن پلان کا مستقبل !
سابق صدور جارج بش اور براک اوبامہ ، کانگریس میں مشترکہ قانون سازی کےلئے کوششیں کرتے رہے اور بالآخر ناکام ہو گئے ۔ کانگریشنل ڈیموکریٹس اور امیگریشن ایڈوکیٹس مذکورہ حکمت عملی دوبارہ اپنانے کے حق میں نہیں ہیں
نیویارک (محسن ظہیر ) امریکی صدر جو بائیڈن ملک کے امیگریشن نظام میں اصلاحات کے معاملے کو اپنے دو سابق پیشروں جارج بش جونئیر اور براک اوبامہ کے طریقہ کار سے مختلف انداز میں ڈیل کرنا چاہتے ہیں ۔سابق صدور جارج بش اور براک اوبامہ ، کانگریس میں مشترکہ قانون سازی کےلئے کوششیں کرتے رہے اور بالآخر ناکام ہو گئے ۔ کانگریشنل ڈیموکریٹس اور امیگریشن ایڈوکیٹس مذکورہ حکمت عملی دوبارہ اپنانے کے حق میں نہیں ہیں ۔
یو ایس سینٹ میں امیگریشن کے حوالے سے قانون سازی میں اہم کردار ادا کرنے والے نیوجرسی سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ یو ایس سینیٹر باب مینیڈیز کا کہنا ہے کہ وہ با مقصد بات چیت پر یقین رکھتے ہیں تاہم یہ بات چیت ہفتوں میں مکمل ہونی چاہئیے نہ کہ اس کےلئے کئی ماہ گذار دئیے جائیں ۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ امیگریش سمیت قانون سازی کے دیگر امور کے حوالے سے صدر بائیڈن کی مشاورت اور افہام و تفہیم سے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کو ریپبلکن سے مذاکرات میں چیلنجز پیش آسکتے ہیں ۔سیاسی تجزئیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے بعض قائدین کا خیال ہے کہ ریپبلکن کے ساتھ اس مسلہ پر با معنی تعاون حاصل ہو سکتا ہے ۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق مائیگریشن پالیسی انسٹیٹیویٹ کے سینئر فیلو مظفر چشتی کاہ کہنا ہے کہ امیگریشن اصلاحات کے حوالے سے تجربے اور امید میں بہت فرق ہے ۔سابق صدر ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن تو کجا ملک میں لیگل امیگریشن کے مواقع بھی محدود یا کم کرنے کی کوشش کی ، ان کے برعکس صدر بائیڈن نے شروع میں مختلف اپروچ اپنائی ہے ۔
واضح رہے کہ صدر جارج بش جونئیر کے دور میں سینیٹر ٹیڈ کینیڈی اور سینیٹر جان میکین کی جانب سے امیگریشن اصلاحات کے لئے مشترکہ کوششیں کی گئیں اور صدر براک اوبامہ کے دور میں آٹھ اہم ارکان کانگریس پر مشتمل ایک گروپ جو کہ ”گینگ آف ایٹ“کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ، نے کوششیں لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں لیکن سال 2021کی صورتحال مختلف ہے ۔ اب ڈیموکریٹس کے پاس وائٹ ہاو¿س کا کنٹرول ہونے کے ساتھ ساتھ ایوان نمائندگان اور سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہے ۔
سابق صدور جارج بش اور براک اوبامہ اپنی پہلی ٹرم میں مختلف وجوہات کی بنا پر امیگریشن اصلاحات کےلئے اقدام نہ کر سکے لیکن صدر بائیڈن کی جانب سے پہلی ٹرم کے پہلے ہی روز امیگریشن اصلاحات کے لئے اقدام کیا گیا ہے جو کہ ان کی مختلف اپروچ کی عکاسی کرتا ہے ۔
صدر بائیڈن کی جانب سے صدارت کے پہلے دن امیگریشن قوانین کے اطلاق کے حوالے سے جو گائیڈ لائینز جاری کی گئیں ، ان کے تحت بیشتر ڈیپورٹیش پر پیش رفت تعطل کا شکار ہو گئی ما سوائے ان لوگوں کے کہ خطرناک تصور کئے جائیں گے ۔ اسی طرح بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مسلم ممالک پر ٹرمپ دور میں عائد سفری پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں اور بارڈر پر تعمیر ہونے والی دیوار کو بھی روک دیا گیا ہے ۔
اوبامہ انتظامیہ کے دور میں اوائل کے سال میں ڈیپورٹیشن اور بارڈر سیکورٹی کے حوالے سے سخت اقدام کئے گئے جن کا ایک مقصد ریپبلکن قائدین کے تحفظات کو دور کرنا تھا تاکہ امیگریشن اصلاحات کی راہ ہموار ہو لیکن آخر میں اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ۔
قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سینیٹر باب مینیڈیز کو سینٹ میں امیگریشن کے حوالے سے بالخصوص 11ملین غیر قانونی تارکین وطن کو لیگل کرنے کی قانون سازی کے حوالے سے ”فلی بسٹر“ کو توڑنے کے لئے کم از کم دس ریپبلکن سینیٹرز کے تعاون کی ضرورت ہو گی ۔
ڈیموکریٹس ، امیگریشن پر قانون سازی کے معاملے پر مرحلہ وار آپشن پر بھی غور کر سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر وہ کم عمر میں امریکہ آنے والے اور ٹی پی ایس سٹیٹس کے حامل تارکین وطن کو لیگل کرنے کے معاملے کو پہلے ہینڈل کریں ۔ دوسرے معاملات کو آئندہ مراحل میں طے کروائیں ۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔تجزئیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بھی امکان ہے کہ گیارہ ملین غیر قانونی تارکین وطن کو پہلے مرحلے میں لیگل سٹیٹس دینے پر قانون سازی کی جائے اور ان کو شہریت کے لئیے اہل قراردلوانے کے معاملے کو اگلے مرحلے تک موخر کیا جائے ۔سینیٹر باب مینیڈیز کا کہنا ہے کہ ہم کوئی نہ کوئی ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قانون سازی کی مشترکہ کوششوں کی حکمت عملی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہم کچھ کئے بغیر اپنے گھروں کوواپس جائیں ۔
Future of Biden Immigration plan!!!