پاکستان میں پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز کے انتخاب سے توقعات
خصوصی مضمون ۔۔فرینک ایف اسلام
پاکستان کے حالیہ عام انتخابات میں ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں مریم نواز شریف کی بحیثیت خاتون وزیراعلیٰ انتخاب نہ صرف پاکستانیوں بلکہ دنیا بھر میں صنفی امتیاز کے خلاف کام کرنے والوں کیلئے باعث افتخاراورامید کی نئی کرن ہے۔ میں امریکہ میں رہتے ہوئے دنیا بھر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی جدوجہد کا قریبی مشاہد ہ رکھتاہوں۔امریکی تاریخ میں ماہ مارچ خواتین کو بااختیاربنانے کی جدوجہد کی یاددلاتا ہے جس میں 1920ءکو خواتین کو پہلی بار ووٹ کا حق دیاگیا اوراس کے بعد نہ صرف امریکی خواتین نے مختلف شعبوں میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ انتخابی عمل کے ذریعہ بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔مساوی تنخواہوں کا ایکٹ 1963ء، رو وی ویڈ کا فیصلہ 1973ءاورحال ہی میں چلنے والی می ٹو مہم اس پیش رفت کے ثبوت ہیں لیکن صنفی مساوات کی جدوجہد میں ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔تنخواہوں میں عدم مساوات، کام کی جگہوں پر خواتین کا استحصال، سیاسی قیادت میں نمایاں جگہوں پر تعیناتیوں میں رکاوٹیں اوررو وی ویڈ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم جیسے مسائل کا امریکی معاشرہ کو ابھی بھی سامنا ہے۔
ایک امریکی مسلمان کی حیثیت سے پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے سفر کو میں ایک منفرد نقطہ نظررکھتاہوں جو مشترکہ کوشش اور مسئلہ کے سیاق وسباق کے حوالہ سے دیکھتا اورمحسوس کرتاہے۔مریم نواز پاکستان میں تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی اورموجودہ وزیراعظم شہبازشریف کی بھتیجی ہیں۔ مریم نواز کا یہ عہدہ ان کے خاندانی پس منظر اورملکی سیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے مواقع اور چیلنجز کا سبب ہوسکتاہے۔ پہلی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کا ہر عمل انکی کارکردگی کے حوالہ سے پرکھا جائے گا اوریہ مستقبل میں خواتین لیڈرشپ کیلئے نئی راہیں کھولنے کا پیش خیمہ بھی ہوسکتاہے۔
مریم نوازشریف نے بطور وزیراعلیٰ اپنے انتخاب کے بعد اپنی تقریر میں جو وعدے کیے تھے ان میں ترجیحی بنیادوں پر خواتین کا بااختیاربنانے، خواتین کو بینکوں سے قرضوں کی فراہمی، خواتین کو ہراساں کرنے خلاف سخت ایکشن کا عندیہ دیاہے۔ انہوں نے خواتین کیلئے ایمرجنسی ہیلپ لائن قائم کرنے اورانکے لئے الگ ٹائیلٹس کے علاوہ بچوں کیلئے ڈے کیئر سنٹرز کے قیام کا بھی اعلان کیاہے۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابل بیان اضافہ کے اثرات ختم کرنے کیلئے خاتون وزیراعلیٰ نے متوسط اورغریب طبقات کیلئے فوڈ پیکج کا اعلان کرکے رمضان المبارک میں ان کی مشکلات کے ازالہ کی بھی کوشش کی ہے۔
وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد مریم نواز نے کہاتھا کہ ان کا انتخاب ہر ماں ، بہن اوربیٹی کیلئے باعث فخر ہے اور ان کی دعاءہے کہ خواتین کی کامیابی کا یہ سفر جاری رہےا ورمزید خواتین لیڈر آف دی ہاﺅس منتخب ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ مریم نواز کے یہ وعدے اور ارادے پاکستانی خواتین جو کہ کئی عشروں سے مساوی حقوق اورمعاشرتی رکاوٹوں کا سامنا کررہی ہیں ، کیلئے ایک نئی صبح کا آغاز ثابت ہوسکتے ہیں۔پاکستانی خواتین کی حالت زار پچیدہ اورچیلنجنگ رہی ہےاور اس معاشرہ میں صنفی مساوات ناپیدہے، خواتین کی خواندگی کی شرح اور انکے لئے حصول تعلیم اور صحت کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ رجعت پسندانہ معاشرتی مسائل خواتین کی آزادی اوران کے لئے مواقع کو محدود کردیتے ہیں۔ خواتین پر تشدد بالخصوص گھریلو تشدد، ا?نر کلنگ اوراسی نوعیت کے جرائم ہمیشہ سے باعث تشویش رہے ہیں۔ ان حالات میں مریم نواز پاکستانی خواتین کی امیدوں کا محور بن سکتی ہیں۔وہ خواتین کو حراساں کرنے کے واقعات پر قابو پاکر، خواتین کو بااختیاربنانے کیلئے قرضوں کی ا?سان فراہمی اورمستقبل میں خواتین کی لیڈرشپ کیلئے راہ ہموارکرنے میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔مریم نواز کی ترقی پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ اورخواتین کی حالت زار کی بہتری کیلئے عملی اقدامات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاءاوردیگر جمہوریتوں کے لئے باعث تقلید بن سکتے ہیں۔ان مقاصد کے حصول کیلئے وزیراعلیٰ مریم نواز کو کثیر جہتی اقدامات اٹھانے اور ان پر کامیابی سے عملدرامد کی ضرورت ہوگی جس کےلئے انہیں اپنی سیاسی جماعت اورملک میں متحرک دیگر گروپوں کی حمایت بھی درکارہوگی۔
ایک مبصرکے طور پر میں سمجھتاہوں کہ مریم نواز کی کامیابی میں مندرجہ ذیل تین فیکٹرز اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔ اول یہ کہ انہیں مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں جڑ سے ختم کرناہوگا۔ خواتین کو قرضوں کی فراہمی اورانہیں ہراساں کرنے کے عمل کا خاتمہ یقینی طورپر اہم ہے لیکن اس کا سبب بننے والی وجوہات جیساکہ صنفی عدم مساوات، خواتین کے خلاف امتیازی قوانین اورمعاشرے میں پائی جانے والے غلط رویوں کا خاتمہ بھی لازم ہوگا۔ دوم ٹھوس منصوبہ بندی اوراس پر عملدرامد کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اوراس پر سو فیصد عملدرامد کو یقینی بنانا پائیدار ترقی کیلئے سب سے اہم ہے۔ موثر انتظامی مشینری اورنگرانی کا فول پروف نظام کسی بھی منصوبہ کی تکمیل اور کامیابی میں مرکزی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
سوم یہ کہ خاتون وزیراعلیٰ اداروں کے تعاون اورباہمی اتفاق رائے کے ذریعہ زیادہ موثر انداز میں اپنا کام آگے بڑھاسکتی ہیں جس کے لئے خواتین کے حقوق کے علمبرداروں، مذہبی سکالرز اورسیاسی وسماجی راہنماﺅں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ذریعہ معاشرے میں سماجی تبدیلی لانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ تمام طبقات میں اتفاق رائے سے ہی دیرپا ترقی اور معاشرتی اصلاحات پر عملدرامد یقینی بنایا جاسکتاہے۔ میں آخر میں یہ سمجھتاہوں کہ مریم نواز کا بطوروزیراعلیٰ پنجاب انتخاب پاکستانی سیاست میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان میں صنفی مساوات قائم کرنے اورمعاشرتی ترقی کی راہ ہموارکرنے کا بہترین موقع ہے۔ مریم نواز کا خواتین کو بااختیاربنانے کا عزم ایک ابتداءہے اوراس عزم کو قابل عمل پالیسی سازی اورمعاشرتی اصلاحات کے ذریعہ پاکستان کی کروڑوں خواتین کامستقبل محفوظ ، باوقار اوربامقصد بنایاجاسکتاہے۔ اس عزم کے عملی جامہ پہنائے جانے کے ثمرات سے نہ صرف خواتین بلکہ پوری پاکستانی قوم مستفید ہوسکے گی۔