گذشتہ ماہ 22جون کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعہ نان امیگرنٹ ورک ویزہ کے حامل افراد کی سال رواں کے آخر تک امریکہ آمدپر پابندی عائد کردی ہے۔
اس حکمنامہ کے تحت متاثرہونے والے ویزوں میں بالخصوص ایچ ون بی شامل ہے جس کے تحت دس لاکھ سے زائد بھارتی آئی ٹی پروفیشنلز اورکئی ہزار پاکستانی ڈاکٹرز 1990 سے امریکہ میں خدمات انجام دے رہے تھے جبکہ ایل ون ویزہ کے تحت امریکی کمپنیاں بھارت میں قائم اپنے دفاتر کے ذریعہ بھرتی کئے گئے افراد کو امریکہ لاتی تھیں۔رواں ماہ 6جولائی کو یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے اسی ضمن میں مزید پیش قدمی دکھاتے ہوئے نان امیگرنٹ ویزہ رکھنے والے طلبائ کیلئے ایک نئے ضابطہ کا اعلان کردیا جس کے تحت انہیں ذاتی طورپر کلاسز لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاگیاتھا کہ اگروہ ایسانہیں کررہے تو واپس اپنے ملکوں کو چلے جائیں۔
اس ویزہ کیٹگری کے تحت طلباءو طالبات کو آپشنل پریکٹیکل ٹریننگ (او پی ٹی) کی اجازت ہوتی ہے اوراس کے تحت وہ گریجویشن مکمل کرنے کے تین سال بعد تک رہنے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی اختیارکرسکتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تعلیمی سال 2019-2018کے دوران دو لاکھ سے زائد بین الاقوامی طلباﺅطالبا ت نے او پی ٹی اختیارکی تھی اوریہی وجہ ہے کہ ہارورڈ، ایم آئی ٹی اورجان ہاپکنز جیسے بڑے تعلیمی اداروں نے یوایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای)کے اس نئے ضابطہ کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ امریکہ کی 17ریاستوں نے ہائیر ایجوکیشن کے اداروں اورریاستی حدودمیں کمیونٹیز کے متاثر ہونے کے پیش نظر اس ضابطہ کے خلاف کیس کردیاہے۔ امریکی سٹوڈنٹ ویزے صدر ٹرمپ کے راڈار میں تو نہیں تھے لیکن ایچ ون بی ویزہ انکی نظرمیں پہلے سے ہی کھٹک رہاتھا، چار سال قبل اپنی صدارتی مہم کے دوران انہوں نے اس ویزہ کے خلاف کئی بار کھل کر اظہارخیال کیا تھا۔
وائٹ ہاﺅس کی منزل حاصل کرنے کے بعد اپنے متنازعہ انتخابی وعدوں میں سے مسلمانوں پرپابندی اوربین الاقوامی معاہدوں جیسا کہ نیفٹا (این اے ایف ٹی اے) اور پیرس ایگریمنٹ کو ایگزیکٹیو آرڈرز کے ذریعہ روندنے کے باوجود گذشتہ 43ماہ کے دور صدارت میں ڈونالڈ ٹرمپ نےویزہ پروگرام سے کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی تھی جس کی دو بنیادی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔ اولاً تو امریکی معیشت ہے جو کرونا وائرس کی وباءسے قبل بہت اچھی جارہی تھی اور اسکے ساتھ ساتھ ٹیک انڈسٹری ہے جو تین چوتھائی ایچ ون بی ویزہ کے حامل ملازمین کے ساتھ بہت اعلیٰ نتائج دے رہی تھی۔
صدر ٹرمپ کو روکنے والی دوسری بڑی وجہ امریکی ٹیکنالوجی انڈسٹری کی طاقتورلابنگ کو قراردیاجاسکتا ہے کیونکہ امریکہ کی چار بڑی کمپنیان ایمزون، گوگل، ایپل و مائیکروسوفٹ اورفیس بک عمومی طورپر ایچ ون بی ویزہ کے استعمال سے ہی اس قدر نفع بخش کمپنیاں بن سکی ہیں اوروہ اپنی اتنی بڑی ورک فورس کو یونہی ضائع نہیں ہونے دیں گی۔ ان کمپنیوں کا اثرورسوخ اس وقت نمایاں ہوگیا تھا جب رواں برس 22اپریل کو صدر ٹرمپ نے نان امیگرنٹ ورک ویزوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایچ ون بی ویزہ سے چھیڑ چھاڑ سے اجتناب کیاتھا حالانکہ اطلاعات یہی تھیں کہ ایچ ون بی ویزہ اس وقت بھی امریکی صدر کے راڈار میں تھا مگر ان کمپنیوں کے اثرورسوخ کے سبب وہ ایسا نہ کرپائے تھے۔
آخر 22اپریل سے 22جون کے درمیان ایسا کیاہوگیا کہ جس نے صدر ٹرمپ کو حکمت عملی بدلنے پر مجبورکردیا۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس میں بنیادی طورپر ڈونالڈ ٹرمپ کے دوسری صدارتی ٹرم کے معدوم ہوتے امکانات ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے کئی ایک سروے ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کے مقابلہ میں امریکی صدر کو کافی مشکلات کا شکار ظاہر کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے کووڈ-19عالمی وباءکے خلاف غیر سنجیدہ اقدامات، وباءکی ابتداءمیں اسے خطرہ سمجھنے سے انکار کرنے اوربعدازاں اسکے کنٹرول کیلئے زوداثر اقدامات کرنے میں ناکامی نے ان پرعوام کے اعتمادکو بری طرح مجروح کردیاہے۔ کووڈ۔19عالمی وباءسے قبل صدر ٹرمپ امریکی معیشت کی بحالی کے حوالہ سے انتخابات کو ایک ریفرنڈم قراردے رہے تھے لیکن وباءپھوٹنے سے ایک لاکھ 37ہزار سے زائد امریکی شہریوں کی ہلاکت اورچار کروڑ ملازمتوں کے خاتمہ نے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیاہے۔
امریکی تاریخ کے کھربوں ڈالر کے بڑے پیکج سے اگرچہ کئی ملازمتیں بحال ہوچکی ہیں لیکن معیشت کی دوبارہ بحالی کا صدارتی پلان تاحال کام کرتادکھائی نہیں دے رہا۔ اب جبکہ ملک کے کئی حصے دوبارہ لاک ڈاﺅں کی طرف جارہے ہیں اورجنوبی اورمغربی ریاستوں میں وباءنئے سرے سے پھیل رہی ہے اس لئے کہنا مشکل ہے کہ معیشت کے بل بوتے پر ٹرمپ نومبر میں انتخابی معرکہ سر کرسکیں گے۔ صدر ٹرمپ کو اب ضرورت اس امر کی تھی کہ وہ امریکی معیشت کی بحالی اور بے روزگاری کے خاتمہ کیلئے انقلابی اقدامات کرتے دکھائی دیتے اوراس مقصد کی خاطر ایچ ون بی ویزہ کی قربانی معاشی قوم پرستوں کوسب سے آسان ٹارگٹ دکھائی دیا ہوگا۔
اس کے برعکس اگر حقائق کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہےکہ ویزہ پروگرامز سے نئی ملازمتیں پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے جیسا کہ ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز (این اے ایف ایس اے) کے معاشی تجزیہ کے مطابق بین الاقوامی طلباءوطالبات کا امریکی معیشت میں 41بلین ڈالرز کا حصہ تھا اوران کی مدد سے 458290 نئی ملازمتیں صرف 2019-2018کی تعلیمی سال میں پیدا ہوئیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کے اندازہ کے مطابق امریکی یونیورسٹیوں اورکالجوں میں اس وقت 8ہزار سے زائد پاکستانیوں سمیت 10لاکھ سے زائد غیر ملکی طلباءوطالبات سالانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان سے تعلیمی اداروں اورکمیونٹی کو جوقابل قدر مالی منعفت ہوتی ہے اسے کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔بہرحال ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس ایگزیکٹیو آرڈر سے وہ پانچ لاکھ سے زائد ملازمتیں بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں اور یہ دعویٰ ٹرمپ کے ووٹ بینک کو بہرحال پسند آئے گا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایچ ون بی سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر بنیادی طور پر ان ویزہ صارفین کو متاثر کرے گا جو امریکہ سے باہر رہ رہے ہیں اوران کے پاسپورٹس پر ابھی ویزہ نہیں لگا۔ نتیجتاً یہ آرڈر امریکہ میں کام کے خواہشمند افراد کو مختصر مدت کیلئے ہی متاثر کرسکے گا۔
یوایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروس سالانہ تقریباً 85ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرتاہے جن میں سے 20ہزار ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس امریکی ماسٹرز ڈگری ہوتی ہے۔ اس کیٹگری میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو پہلے سے ہی امریکہ میں مقیم ہیں اوراکتوبر میں جب ملازمتیں بحال ہونگی تو وہ متاثرین میں شامل نہیں ہونگے۔
امیگریشن اٹارنیز کے مطابق باقی ماندہ 65ہزار افراد میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جوایچ ون بی اورایل ون ویزہ رکھنے والوں کے اہل خانہ ہیں اور ان کے علاوہ امریکہ سے گریجوایشن کرنے والے غیر ملکی طلباءو طالبات ہیں جنہیں ابھی ماسٹر ڈگری پروگرام کے تحت ویزے جاری ہونے تھے۔ ماسٹر ڈگری کے امیدوار بھی اس ایگزیکٹیو آرڈر کی زد میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ تو پہلے ہی امریکی میں موجودہیں۔اس صدارتی حکمنامہ کے اثرات دوطرح کے لوگوں پر براہ راست پڑیں گے جن میں سے پہلے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے دورمیں شائد وہ اب ایسا نہ کرسکیں کیونکہ اس دورصدارت میں پہلے ہی امریکہ ایسے طلباءو طالبات سے ہاتھ دھوبیٹھا ہے اوران کی اگلی منزل امریکہ کی بجائے کنیڈا، برطانیہ اورآسٹریلیا بنتی جارہی ہے۔
امریکہ میں بڑے پیمانہ پر بے روزگاری کے باوجود ٹیک انڈسٹری میں ابھی تک ملازمت کے مواقع موجود ہیں اوران سے استفادہ کرکے ہی امریکہ آگے بڑھ سکتاہے۔ امریکی ٹیک انڈسٹری کئی سالوں سے کہہ رہی ہے کہ ملک میں اس کی ضروریات کے مطابق ماہرین تیار نہیں ہورہے جس کی وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اگر ایچ بی ون اورایل ون ویزہ پروگرامز بند کردئیے گئے تو اس انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
اگر اس انڈسٹری کیلئے ایسی مشکلات پیدا کی جاتی رہیں تو یہ انڈیا سمیت دیگر ممالک میں ماہرین بھرتی کرکے اپنا کام آﺅٹ سورس کرنا شروع کردیں گی جس سے نقصان بہرحال امریکی معیشت کا ہی ہوگا۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ملازمتیں واپس امریکہ لانا چاہتے ہیں مگر ان کی نان امیگرینٹس ویزہ پالیسی اورآئی سی ای سٹوڈنٹس ویزہ ریگولیشنز کے سبب امریکی کمپنیاں امریکہ سے باہر مہنگی ملازمتیں حاصل کرنے پر مجبورہوجائیں گی۔
ستم بالائے ستم یہ ہوگا کہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنی ملازمت بطور صدر امریکہ اس پالیسی سے بچانے کیلئے کوشاں ہیں اورشائد انکی اپنی ملازمت بھی نہ بچ پائے گی۔ موجودہ حالات میں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ 4نومبر کو امریکی ووٹرز ڈونالڈ ٹرمپ کو انکی ملازمت سے ہی فارغ کردیں گے جس کے بعد سال 2021ءمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی ویزہ کی پالیسی سازی کسی اورکے ہاتھ میں ہوگی اورڈونالڈ ٹرمپ اپنے لئے کوئی نئی ملازمت ڈھونڈرہے ہونگے۔ اس ضمن میں خوشخبری یہ ہے کہ صدارتی امیدوار جو بائیڈن پہلے ہی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ منتخب ہونے کے بعد ایچ ون بی ویزہ پرپابندی ختم کردیں گے۔
جہاں تک غیرملکی طلباﺅطالبات سے متعلق پالیسی سازی کا تعلق ہے تو ڈیموکریٹس کی سوچ کی بڑی حد تک عکاسی سینیٹر برنی سینڈرز کی ٹویٹ سے ہوتی ہے جس میں ان کا کہناہے کہ غیرملکی طلباءوطالبات کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالنے یا ڈیپورٹیشن کی دھمکی ٹرمپ کی متعصبانہ سوچ کی عکاس ہے لیکن ہم ان تمام طلباءوطالبات کو تحفظ فراہم کریں گے۔یہ وقت امریکہ میں مقیم غیر ملکی ماہرین اورطلباءو طالبات کیلئے یقیناً آزمائش کا ہے لیکن واشنگٹن ڈی سی میں سال 2021ءمیں نئی انتظامیہ کے ساتھ نہ صرف ان کا بلکہ امریکہ کابھی ایک مرتبہ پھر اچھا وقت دوبارہ شروع ہوجائے گا۔
International students visas, Frank Islam