بھارت میں کووڈ 19کےالمیہ : پاکستانی مدد کی پیشکش کے دونوں ملکوں کے تعلق پر اثرات؟
خصوصی مضمون ۔۔۔ فرینک ایف اسلام
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کووڈ 19کے تازہ کیسوں میں تقریباً 50فیصد بھارت میں ہورہے ہیں۔ اس وباءکے آغاز سے یکم مئی 2021ءتک بھارت میں ایک کروڑ نوے لاکھ مجموعی کیس رپورٹ ہوچکے ہیں اورجن سے ہلاکتوں کی کل تعداد 2لاکھ 10 ہزار سے زائد ہے۔کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران ماہ رواں کے پہلے دس دنوں میں بھارت میں روزانہ متاثرہ افراد کی تعداد تین لاکھ سے بڑھ چکی ہے اوریہ لگ بھگ چار لاکھ یومیہ تک پہنچ رہی ہے۔اس تباہ کن لہر نے بھارتی نظام صحت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیاہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک نے بھارت میں طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے مدد فراہم کی ہے تاکہ ویکسین کی بروقت فراہمی، علاج معالجہ ، فوری رزلٹ دینے والی ٹیسٹنگ کٹس، وینٹیلیٹرز، کورونا سے حفاظتی لباس، آکسیجن اوردیگر ضروری ادویات مریضوں تک بروقت پہنچ سکیں۔ اس کارخیرمیں حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے بھی خلوص کے ساتھ نہ صرف کھل کر بات کی ہے بلکہ حتی الوسع اپنے ہمسایہ کی مدد کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔اس ضمن میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا ٹویٹ بھی انکے جذبات کی عکاسی کرتاہے جس میں انہوں نے کووڈ 19 سے متاثرہ بھارتی عوام سے یکجہتی کااظہار کیاہے اورنہ صرف اپنے ہمسایہ ملک میں مریضوں کی جلد صحتیابی بلکہ انہیں وباءکے جلد نجات پانے کیلئے دعاءبھی کی ہے۔ ہمیں انسانیت کو خطرے سے دوچار کرنے والی اس وبا ءکا عالمی سطح پر اجتماعی طورپر مقابلہ کرنا ہوگا۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی یہ ٹویٹ واحد اظہارخیال نہیں تھا بلکہ لاکھوں پاکستانیوں جن میں صحافی، شوبز سٹارز، سیاسی قائدین اورسماجی شخصیات شامل تھیں، نے بھی ملتے جلتے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے اپنے ہمسایہ کیلئے نیک خواہشات کااظہار کیاہےتاکہ بھارت اس وباءکی سنگینی سے باہر نکل سکے۔ پاکستان سٹینڈز وِد انڈیا کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کرتا رہاہے اورنیوز18کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھرسے انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد نے بھی بھارت میں لوگوں سے رابطہ کرکے نہ صرف اظہارہمدردی کیا ہے بلکہ بھارت کے اس وباءجلد قابو پانے کی دعائیں بھی کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عملی طورپر پاکستان کی سب سے بڑی سماجی تنظیم ایدھی فاﺅنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی ( جو بین الاقوامی طور پر شہرت یافتہ سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کے جانشین ہیں) نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو باقاعدہ خط لکھ کر کووڈ 19کی وباءسے نمٹنے کیلئے عملی امداد کے طورپر ڈرائیورز سمیت 50ایمبولینسز اورطبی عملہ کی فراہمی کی پیشکش بھی کی ہے۔فیصل ایدھی کی یہ پیشکش انسان دوستی کی بہترین مثال قراردی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ عالمی سطح پر اس وباءکا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں بین الاقوامی طورپر باہمی مربوط انسان دوستی پر مبنی نیٹ ورک (آئی آئی پی این )کے تحت فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مجوزہ نیٹ ورک کے مقاصد میں اس حکمت عملی اوراقدامات تجویز کرنا ہونا چاہئے جو اس وباءکے خاتمہ اورآئندہ ایسی کسی بھی ممکنہ وباءسے بچاﺅ کیلئے بروقت اورموثر اقدامات ممکن بناسکے۔ گذشتہ برس میں نے تجویز کیاتھا کہ آئی آئی پی این کو ایسا فریم ورک تشکیل دینا چاہئے جو اس وباءکی روک تھام، اسکے اثرات کے خاتمہ اورآئندہ کسی ممکنہ وباءکے بچاﺅ کی حکمت عملی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ مالی سپورٹ کی جزیات کو طے کرے۔
اب جبکہ کووڈ19کی وباءطول پکڑتی جارہی ہے اوراس کی وجہ سے اموات اوراسکے عالمی سطح پر نمودار ہونے والے اثرات کسی بھی اندازے سے زیادہ ہوچکے ہیں تو ان حالات میں آئی آئی پی این کی تشکیل اوراسے فعال کرنی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ آئی آئی پی این کووڈ 19سے نمٹنے کیلئے شارٹ ٹرم ریکوری پلان تشکیل دینے کے علاوہ طویل المیعاد ہیلتھ کیئر اوراس کیلئے معاشی نظام تشکیل د ے سکتی ہے۔ ہرقوم کو ایسے پلان کی ضرورت ہے خواہ وہ امریکہ ہو یا بھارت جو کووڈ19 کی وباءسے بری طرح متاثر اورمسائل سے دوچارہے۔ان حالات میں پاکستان کی طرف سے بامقصد اورانسان دوستی پر مبنی کوشش کو بھارت کی طرف سے سراہا جانا چاہئےاور بھارتی حکام کو بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر جانچنا چاہئے۔گذشتہ ماہ دنیا میں پاک بھارت امن کے حوالہ سے ایک امید کی کرن پیدا ہوئی تھی جب اطلاعات آئیں کہ متحدہ عرب امارات نے دونوں نیوکلیئرطاقتوں کے درمیان کشمیرمیں لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کرایا ہے اورمکمل امن کی بحالی کے لئے دونوں ہمسایوں کے درمیاں مذاکرات کی راہ ہموارکی جارہی ہے۔یہ روڈ میپ یقیناً ایک آغاز ثابت ہوسکتاہے دونوں ممالک کے دوران گذشتہ کئی سال سے جاری جمود توڑنے کا نقطعہ آغاز بھی بن سکتاہے۔
جیساکہ میں اپنے گذشتہ کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ اگرپاکستان اوربھارت بامقصدامن مذاکرات کا آغاز کرتے ہیں تو یہ جنوبی ایشیاءکے پورے خطہ کیلئے سودمند ہوگاجو دفاعی اور فوجی قوت پر انحصار کی بجائے انسانی اقدار اورصحت کی طرف دونوں حکومتوں کی توجہ مرکوز کرنے کا باعث بنے گا۔ یہ ایک اہم اوریادگارلمحہ ہوسکتاہے ، لاکھوں پاکستانی اوربھارتی شہریوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مثبت پیغام رسانی دیکھتے ہوئے دونوں ملکوں کی قیادت کو بھی پیش رفت کرنا چاہئے۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے خیرسگالی کے جذبات پیدا کئے ہیں جنہیں دونوں ملکوں کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے براہ راست رابطوں سے مزید مستحکم بنانے کے مواقع پیدا کرنے کیلئے استعمال کیاجا سکتاہے۔
موجودہ حالات میں ان مواقع پر بھروسہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں میں صحت کی سہولیات کی بہتری کی طرف پیش رفت کرنی چاہئے۔ اس اشتراک عمل کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک آنے والے دنوں میں مذہبی مقامات کا دورہ کرنے کے خواہشمند شہریوں کیلئے ویزوں کااجراءبحال کرسکتے ہیں اور مزید برآں اپنے اپنے طبی ماہرین کو اکٹھا کرکے کووڈ 19کے بعد کے چیلنجز سے عہدہ برآءہونے کیلئے حکمت عملی وضع کرنے کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پیپل ٹو پیپل رابطوں میں دونوں ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کے ایک دوسرے کے ملک میں دوروں کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔ جس کے بعد بتدریج دونوں ملکوں کے متعلقہ حکام اورنمائندوں کو بامقصد امن مذاکرات کی میز پر بھی لایا جاسکے گا۔ حتمی طورپر پھر دونوں ملکوں کے قائدین کو اس جہت پیش رفت کرنا ہوگی کہ انہوں نےماضی کے تلخ تجربوں سے سبق سیکھتے ہوئے صحت ، سماجی اورمعاشی بہتری کےایجنڈے پر عمل کرناہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کی سترسال کی محرومیوں کا ازالہ ممکن بنایا جاسکے۔بہت سے ناقدین اسے ناممکنات میں ایک سمجھیں گے مگر ہمیں اس منفی سوچ کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور یہ حالات ضرورت نہیں اشد ضرورت کے غماز ہیں اور یہی وقت ہے کہ پاکستان اوربھارت باہمی تعلقات میں بہتری کی نئی راہیں تلاش ہی نہیں بلکہ ایجاد کریں۔ پاکستان اور اس کے عوام نے اس ضمن میں اپنا پہلا قدم خلوص دل سے بھارتی عوام کی طرف بڑھایا ہے جو تعلقات کی بہتری اوربرصغیر کے عوام کی خوشحالی کے راستے کھول سکتاہے اوریہی ممکنہ طورپر میرا محتاط ترین نقطعہ نظر ہے۔