عالمی سطح پر نظام جمہوریت کا زوال روکنے کی ضرورت
عالمی سطح پر انسانی آزادی اور ترقی کے علمبردار نظام حکومت جمہوریت کو ان دنوں ناقابل بیان چیلنجز درپیش ہیں اورحالیہ سالوں میں اس تشویش میں اضافہ ہورہاہے
فرینک ایف اسلام
عالمی سطح پر انسانی آزادی اور ترقی کے علمبردار نظام حکومت جمہوریت کو ان دنوں ناقابل بیان چیلنجز درپیش ہیں اورحالیہ سالوں میں اس تشویش میں اضافہ ہورہاہےکہ جمہوری نظام حکومت دنیا بھر میں اپنی ساکھ کھورہاہے۔ مبنی بر نفرت سیاست، نسل پرستی اورعدم برداشت پرمبنی رویے اس زوال کی چند مثالیں ہیں۔ دنیا بھرمیں کئی ایک ممالک میں نفرت پرمبنی سیاست جڑ پکڑ رہی ہےاور سب سے بڑھ کر اسی نفرت کی بنیاد پر مسلمانوں، یہودیوں اوردیگر اقلیتی گروپوں کے خلاف امریکہ جیسی جمہوریت میں بھی جرائم میں اضافہ ریکارڈ کیاجارہاہے۔
یورپ میں دائیں بازو کے انتہاء پسند اپنے نسل پرستانہ نظریات کی بناء پر غلبہ پارہے ہیں جس کی بناء پر اقلیتوں اور اینٹی امیگرنٹ نظریات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔بھارت میں بھی جمہوری اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکارہیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار اس ملک میں مسلم مخالف جذبات، اجتماعی تشدد کے افسوسنا ک واقعات اوراقلیتوں کے حقوق کی پامالی میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کی جارہاہے۔برازیل میں انتہائی دائیں بازو کی قیادت نسل پرستی اور عدم برداشت کا پرچار کررہی ہے جس کے نتیجہ میں وہاں اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہواہے۔ ہنگری اورپولینڈ بھی اسی نہج پر چل رہے ہیں جہاں جمہوری کلچر میں کمی آرہی ہے۔ ان ممالک میں حکومتوں نے از خود نہ صرف اپوزیشن گروپوں کی دبارکھاہے،
آزادی اظہار کی محدود کیاجارہاہے اور قانون کی بالادستی پر سمجھوتے ہورہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں کیاجاسکتاہے جہاں جمہوریت کا زوال دیکھاجارہاہے اورحکومت نے اپوزیشن پر کریک ڈائون کرکے نہ صرف اپوزیشن لیڈروں بلکہ صحافیوں کو بھی پابند سلاسل کر رکھا ہےاورآزادی اظہار اورآزادی صحافت دونوں خطرات سے دوچارہیں۔ پلڈاٹ (دی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹوڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں2022ء کو جمہوریت کےلئے مایوس کن سال قرار دیاہے۔ حکومت پاکستان نے کئی ایک صحافیوں ، کارکنوں اورحزب مخالف کے سیاستدانوں کی غداری، بغاوت اوردیگر سنگین مقدمات میں گرفتار کررکھاہے۔ ان گرفتاریوں کی دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظیموں نے نکتہ چینی کی ہے اور ان کاکہناہے کہ یہ گرفتاریاں حزب اختلاف کو دبانے اور حقوق کی آوازیں دبانے کا حربہ قرار دیاہے۔
حکومت پاکستان کا ایک اور عمل آزادی اظہار پر کریک ڈائون بھی ہے جس پر پیکا قانون(پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ)اور پی این ایس اے (پروٹیکشن آف پاکستان نیشنل سیکورٹی ایکٹ)جیسے قوانین کے ذریعہ حکومتی پالیسیوں کے ناقد صحافیوں، بلاگرز اورسیاسی ورکرز کو خاموش کروانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں جمہوریت کے زوال کی علامات باعث تشویش ہیں اور جمہوریت اور جمہوری عمل کا دفاع ور حفاظت ہونی چاہئے۔ پاکستان اوردنیا کے دیگر ممالک میں اس جمہوری نظام کے انحطاط کی روک تھام کیلئےاقدامات اٹھانے ناگزیر ہوچکے ہیں جن میں بنیادی جمہوری روایات برقرار رکھنے اور جمہوریت کے فروغ کیلئے اقدامات یقینی بنانا شامل ہو۔ مزید یہ کہ جمہوری روایات میں آزادی اظہار، اسمبلی کی آزادی وخودمختاری ، حکومتی احتساب اور قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جانی چاہئے۔
کسی شخص یا ادارے کا بلاخوف وخطر اظہار رائے کا حق آزادی اظہار سے منسلک کیاجانا چاہئے۔ یہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے اور آزادانہ اظہارخیال اور تبادلہ خیالات کو یقینی بناتاہے۔پرامن طریقہ سے اجتماع منعقد کرنے کا حق اور اظہار خیال کا حق دیاجانا چاہئے جو جمہوری حقوق کی روح ہے۔ اس طرح شہری اورجماعتیں اپنا موقف کھلے عام اور بھرپور آزادی سے استعمال کرسکیں۔ قانون کی حکمران کا اصول یہی ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور اس کا یہی مطلب ہے کہ ہر ایک بشمول حکومت وقت بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہے ۔ قانون کی حکمرانی ہی دراصل جمہوری نظام کی اصل روح ہے۔
جمہوری نظام کے فروغ کیلئے ایک ناگزیر نکتہ یہ بھی ہے کہ ریاست کا ہرشہری اتنا تعلیمیافتہ ہو کہ وہ اپنے حقوق پوری ذمہ دار سے ادا کرسکے۔ جمہوری نظام کی اہمیت اور اسے رائج کرنے کے اصولوں سے عام آدمی کی آگاہی کیلئے اقدامات انتہائی ناگزیرہیں جس سے باعلم، باشعور اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ شہری معاشرے اور جمہوری نظام کے استحکام کا سبب بن سکیں گے۔ یہ انفرادی اوراجتماعی عزم سول سوسائٹی کی تنظیموں کے مدد سے کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے احتسابی عمل کے فروغ کا سبب بن سکتاہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کے ذریعہ ووٹرکے حقوق کا تحفظ اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ بھی اس سے یقینی بنائی جاسکتی ہے۔بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے ۓکیلئے قائم کی گئی تنظیموں کے ذریعہ بھی جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اوراس کے ثمرات سے استفادہ ممکن بنایاجاسکتاہے۔
جمہوریت کاتحفظ، ترقی اور اسے رائج رکھنا کسی فرد واحد کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہم سب عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے جسے جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والی تنظیموں سے مل کر زوال پذیر ہونے سے بچانا ہوگا۔ یہی وہ واحد راستہ ہوگا جس پر چل کر ہم دنیا کو ایک بہتر ، مساوات اور انصاف پرمبنی معاشرہ قائم کرسکتے ہیں۔