کووڈ۔19کے مقابلہ میں معاشی بحالی و ترقی کا عمل
دو سو سے زائد ممالک کے 20کروڑ سے زائد شہریوں کو متاثر اور8لاکھ سے زائد اموات کا سبب بننے والے کووڈ -19کی عالمی وبائ نے انسانی تہذیب اورمعیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا اوراب تک اس وباءسے ہونے والے نقصانات کا اندازہ 90کھرب ڈالرز کے لگ بھگ لگایا جاچکاہے۔ کووڈ -19پر کانگریشنل ریسرچ سروس کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ-19کے باعث عالمی معاشی پیداوار 3سے 6فیصد تک سکڑچکی ہے اوراگر اس کی دوسری لہر نہ آئی تو سال 2021میں معاشی پیداوار کی جزوی بحالی کی توقع کی جاسکتی ہے۔یہ رپورٹ بنی نوع انسان پراس وباءکے منفی اثرات سے متعلق خبردار بھی کرتی ہے جو انسانی جانوں کے ضیاع، غربت میں اضافہ، روزگارکے مواقع میں کمی اورسماجی افراتفری کا سبب بن سکتے ہیں۔ عالمی تجارت میں 13سے 32فیصد کمی تجارت پر انحصار کرنے والے اوربالخصوص ترقی پذیر ممالک کی معاشی تباہ حالی کا باعث ہوسکتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اورجیسا کہ بعض ماہرین کی آراءہے کہ ہم کورونا وائرس کے دورمیں زندگی گذار رہے ہیں جہاں لاک ڈاﺅن نے کئی ممالک میں وائرس کا پھیلاﺅ روک رکھا ہے۔ امریکہ ، برازیل اوربھارت جیسے ممالک جہاں لاک ڈاﺅن ختم کیاگیاہے وہاں اس کے دوبارہ پھیلاﺅ کے خدشات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاک ڈاﺅن کے نفاذا ور اس کے خاتمہ کیلئے انتہائی محتاط اورمتوازن اقدامات پر عمل پیراہونے کی ضرورت ہے تاکہ ماسک کے استعمال، سماجی دوری اورہاتھ بار بار دھونے جیسے اقدامات پر مستقل مزاجی سے عمل درآمد ممکن بنایا جاسکے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ لاک ڈاﺅن کے خاتمہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے پرانے طورطریقوں پر واپس آجائیں بلکہ ماسک ، سماجی دوری اورہاتھ دھونے جیسے اقدامات کو “نئے معمول “کی طرح اب زندگی کاحصہ بنانا پڑےگا۔اس نئے معمول کے اندر رہتے ہوئے اب ہمیں کووڈ-19کی معاشی تباہ حالی کا شکار معیشت کی بحالی و ترقی کیلئے بھی کام کرنا ہوگا۔معاشی بحالی کا تجربہ رکھنے والے ایک بین الاقوامی فلانتھروپسٹ کے طور پر میں یہ سمجھتاہوں کہ معاشی بحالی کا یہ سفر اب اتنا سادہ ، مختصراورآسان نہیں ہوگا۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ یقین سے کہہ سکتاہوں کہ ہمیں تین بنیادی اصولوں کو اس مقصد کیلئے پیش نظر رکھنا ہوگا۔
کووڈ۔19کو شکست اورصحت کے بحران کا خاتمہ:
امریکہ کی فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی (ایف او ایم سی) نے اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ معاشی بحالی کے عمل کا انحصار نمایاں طورپر کووڈ-19پر ہے جس کی وجہ سے پبلک ہیلتھ کا جاری بحران معاشی سرگرمیوں اورروزگارکو متاثر کررہاہے جو آئندہ افراط زر کا سبب بھی بنے گااور ساتھ ساتھ یہ معاشی حجم کیلئے بھی ایک بڑے خطرہ کی نشاندہی بھی کررہاہے۔اس کمیٹی کی یہ رپورٹ کووڈ-19کے خاتمہ کیلئے ویکسین کی تیاری اور اسکے ذریعہ صحت کے جاری بحران کے خاتمہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتی حالانکہ طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے ایک مستند اورآزمودہ ویکسین کی ضرورت ہے جو بلاتفریق تمام شہریوں کی پہنچ میں بھی ہواوراس کے بغیر معاشی گراوٹ کی روک تھام ممکن نہیں ہوسکےگی۔
انسانی ترقی کے نئے دور کا فروغ:
کووڈ-19کی عالمی وبائ نے انسانی ترقی کے نئے دورکیلئے نئی راہوں کے تعین کی راہ ہموارکردی ہے۔گھر بیٹھے کام کا رواج، آن لائن ٹریڈنگ، سائبر سیکیورٹی ، مصنوعی ذہانت اوراس نوعیت کے دیگر شعبوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں ملکی افرادی قوت کو نئے حالات اورنئے ہنرکے مطابق ڈھالنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔وہ تمام ممالک جو ترقی کے خواہاں اوراپنے شہریوں کو آنے والے وقت کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے شہریوں کی تربیت، تعلیم اورترقی کیلئے فوری اقدامات کریں۔
بیروزگاروں اورچھوٹے کاروبارکیلئے پرکشش پیکجز کا احیاء:
اس عالمی وباءکے پھیلنے کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے فوری طور پر اپنے بیروزگاراور چھوٹے کاروباری لوگوں کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے فوری پیکجز کے اعلان کئے جن میں سے اکثر وبیشتر اب تک ختم ہوچکے ہیں لیکن ان کی ضرورت ابھی بھی موجود ہے اورانہیں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے بحال کیا جانا چاہئے تاکہ خریدوفروخت اورتجارتی سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔
معاشی بحالی اورغربت کے خاتمہ کیلئے یہ عمومی اقدمات ملکی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے لیکن ترقیافتہ ممالک ترقی پذیرممالک کی مدد کیلئے کیا اقدامات کرنا چاہئیں بالخصوص افریقہ اورایشیاءکے ترقی پذیر ممالک کی مدد کیلئے کیا کچھ کیا جاسکتاہے۔ سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کی گلوبل ڈیویلپمنٹ کونسل کے چیئرمین محمدالعریان جو کہ ایک ماہر اورتجربہ کار ماہر معیشت ہیں ، نے معاشی بحالی کیلئے عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اپنے آرٹیکل میں ان کا کہناتھا کہ کووڈ۔19کی عالمی وباءنے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو تباہ حالی کا شکار کردیاہے ۔ ایک ٹھوس، امدادباہمی اوراجتماعی کاوش سے اب ایک بڑے انسانی المیہ کا راستہ روکا جاسکتاہے جس کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کو غیرمتوازن اورمتاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔میں اس تناظر میں اس امر سے اتفاق کرتاہوں کہ ترقیافتہ ممالک کو باہمی مل جل کر اوراشتراک سے ایک مارشل پلان ترتیب دینا چاہئے جس میں ان ملکوں کیلئے فوری پیکیجز اوردیرپا معاشی ترقی کے پروگرام شامل ہوں۔ میری آراء میں اس مجوزہ مارشل پلان میں مندرجہ ذیل نکات پر غور کیاجانا چاہئے۔
اول :ترقی پذیر ممالک سے بلا رکاوٹ برآمدات کے فروغ کیلئے خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں، دوم : مالی معاونت میں اضافہ، قرضوں میں ریلیف اورترقیافتہ ممالک اوربڑی کمپنیوں پر مشتمل عالمی فنڈ کا قیام، سوم: قابل اعتماد اورجدید ہیلتھ کیئر سسٹم کا قیام اورعالمی وباء سے مقابلہ کیلئے مشترکہ جدوجہد اورتجربات سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ اس وقت چین بڑے پیمانہ پر میڈیکل عطیات، مالی معاونت اورانفراسٹرکچرل اصلاحات کیلئے متعدد ممالک کی امداد کررہاہے اورامریکہ ، یورپی ممالک اوران کے اتحادیوں کو بھی متحد ہوکر ایسا کرنا چاہئے۔
ان حالات کے تناظر میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کووڈ۔19کے باعث پاکستان معاشی طور پر کہاں کھڑا ہے اوروہ کیا کرسکتا ہے اوراسے کیا کرنا چاہئے۔ ایک انویسٹمنٹ بینکراورتجزیہ کار خرم شہزاد توقع کررہے ہیں کہ کووڈ۔19کی عالمی وباءسے دنیا بھر کی معیشتوں پر پڑنے والے منفی اثرات کی طرح پاکستان کی معیشت 15ارب ڈالر تک سکڑ جائے گی اور10فیصد تک جی ڈی پی بھی مالی سال 2020ءکی چوتھی سہ ماہی میں گر سکتاہے۔پاکستان پہلے سے ہی ورلڈ بینک کے تعاون سے ریزیلیئنٹ انسٹی ٹیوشنز فار سسٹین ایبل اکانومی (آرائی ایس ای) پروگرام پر عمل پیرا ہے تاکہ اپنی معاشی بحالی اورمالی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔اس پروگرام کے ساتھ ساتھ پاکستان معاشی استحکام کیلئے ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے ، قرضوں کی واپسی اوراستعمال میں شفافیت کے علاوہ پاورسیکٹر میں اصلاحات کرکے مالی استحکام کیلئے بھی کوشاں ہے۔ مزیدبرآں پاکستان سافٹ ویئر انڈسٹری، ٹیکنالوجی ، سائبر سیکیورٹی اورآن لائن ٹریڈنگ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جس کے ساتھ ساتھ نئی ابھرتی ہوئی فیلڈز میں درمیانی اورطویل مدتی معاشی استحکام کیلئے انسانی ترقی کے شعبوں کو فروغ دینا ہوگا۔ واضح رہے کہ پاکستانی برآمدات او ر اوورسیز ریمیٹنس کووڈ۔19سے بری طرح متاثر ہوچکی ہیں اوراس بحران کے حل کیلئے مندرجہ بالا شعبوں پر توجہ کی فوری ضرورت درپیش ہے۔
آخر میں ایک انتہائی اہم بات بھی حکومت پاکستان کی توجہ کی متقاضی ہے کہ اسے غریب اورپسماندہ طبقات کے معاشی استحکام کیلئے سماجی بہبود کے پروگرام کا آغاز کرنا چاہئے تاکہ یہ لوگ چھوٹے کاروبار کرکے خودکفیل بن کی ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔ کووڈ۔19پوری دنیا کا ایک کھلا دشمن ہےاوریہی موقع ہے کہ اپنے دشمن کو پہچان کراقوام عالم مل جل کر اورمشترکہ کاوشوں سے نہ صرف کووڈ۔19کا خاتمہ کریں بلکہ پوری بنی نوع انسان کو ایک صحتمند اورمعاشی خوشحالی پر مبنی مستقبل کی نوید سنائیں۔