بائیڈن : پاک امریکہ تعلقات کے حوالہ سے بہتر صدر ثابت ہونگے !
خصوصی مضمون ۔۔۔فرینک ایف اسلام
دنیا بھر کی طرح امریکہ اورپاکستان میں بھی ماہ اپریل کے دوران کرونا کی عالمی وباءکی خبریں ذرائع ابلاغ پر چھائی رہی ہیں اوراسی ماہ کے دوران جو بائیڈن امریکی صدارتی انتخابات کےلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوارکے طورپر سامنے آئے ہیں جو دوبارہ صدارتی انتخاب کیلئے کوشاں ری پبلکن امیدواورموجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا مقابلہ کریں گے۔ پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل کے حوالہ سے ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلہ میں بائیڈن کے صدر بننے پر کیسا ہوگااس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ صدر ٹرمپ کی جاری مدت کے دوران یہ تعلقات کیسے رہے ہیں اورانکی دوسری مدت میں ان تعلقات پر کیا ممکنہ پیش رفت ہوسکتی ہے۔
اگر پاکستان اورامریکہ کے مابین صدر ٹرمپ کے دور صدارت کے دوران تعلقات کو اطمینان بخش قرار دیا جاسکتاہے مگر عمران خان کے وزیراعظم پاکستان بننے سے پہلے افغانستان اورجنوبی افریقہ سے متعلقہ امریکی سٹریٹجی پالیسی 2017ءپر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہاتھا کہ پاکستان پر دہشت گردوں، تشدد اورافراتفری پھیلانے والوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے الزام عائد کرتے ہوئے زوردیاتھا کہ پاکستان کو عملی طورپر تہذیب وتمدن پر مبنی معاشرت کی طرف لوٹنا ہوگا۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد صدر ٹرمپ کی آراءتبدیل ہوکر مفاہمت اورباہمی تعاون کی طرف جاتی دکھائی دی اور حال ہی میں صدر ٹرمپ نے عمران خان کو فون کرکے کرونا عالمی وباءکے حوالہ سے امریکہ کی طرف سے طبی اورمعاشی امداد کی فراہمی کا وعدہ بھی کیاہے۔قبل ازیں گذشتہ برس ہی صدر ٹرمپ نے پاکستان اوربھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر پر ثالثی کروانے کی پیشکش بھی کی جس پر بھارت نے ناگواری کااظہارکیاتھا۔اس تناظرمیں دیکھاجائے تو ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان کے حوالہ سے جہاں صدر ٹرمپ نے مثبت اشارے دیئے ہیں وہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں ٹھوس پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔
اگر ڈونالڈ ٹرمپ انتخابات جیت جاتے ہیں تو تعلقات کی بہتری کا یہ عمل جاری رہنے کا عندیہ ظاہر کیاجاسکتاہے۔ تعلقات کی اس تبدیلی کو ٹرمپ کے تنہاءپسندی، امیگریشن اورانڈیا (تین آئی)کی ترجیحات کا کیس بھی کہاجاسکتاہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی فارن پالیسی سب سے پہلے امریکہ پر مبنی ہے۔اس ضمن میں وہ تنہائ پسند ہےاورکئی ایک بین الاقوامی معاہدے انہوں نے صرف اسی وجہ سے توڑے ہیں اورمختلف ممالک کے ساتھ باہمی تجارتی ڈیل کی ہیں جسے وہ امریکہ کے زیادہ مفادمیں قرار دیتے ہیں۔
امریکہ سپریم پاور کے طورپر عالمی رہنماءکا کردار ادا کرتارہاہے لیکن اب اس کردار کو ختم کیاجارہاہے جس کی ایک مثال پاکستان بھی ہے۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے کرونا وائرس کے حوالہ سے پاکستان کو جو امداد کی پیشکس کی تھی وہ نہ صرف تاخیر سے کی گئی بلکہ اس قدر کم تھی کہ دوسری طرف چین نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھرکےمتاثرہ ممالک کو فوری طورپر کثیر امداد فراہم کی بلکہ ان کی تکنیکی معاونت میں بھی پیش پیش رہا۔
امیگریشن کے حوالہ سے ڈونالڈ ٹرمپ کا غیر لچکداررویہ اورامیگرنٹس کےلئے امریکی بارڈرز بند کرنے کے دعوے کئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں کیلئے امریکہ کو مکمل طورپر بند کرنے کے دعوے سے بھی ثابت ہوتاہے کہ وہ مذہب اسلام کے ماننے والوں کو امیگریشن نہیں دینا چاہتے۔
اس کے علاوہ اگرچہ صدر ٹرمپ بھارت کو وقتاًفوقتا ً تجارتی معاہدوں کے حوالہ سے مشکلات کا شکار کرتے رہے ہیں لیکن گذشتہ سال دوسال سے ان کا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے رابطہ ، پیار ومحبت کی پینگیں اورضیافتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ستمبر2019ءمیں ہیوسٹن میں ٹرمپ مودی کی ریلی میں سٹیج پر موجود تھے اوراسی طرح اس سال فروری میں نمستے ٹرمپ کے نام سے بھارت میں صدر ٹرمپ کا استقبال کیاگیاتھا۔ان واقعات کو زیادہ تر حلقوں نے ڈپلومیٹک کی بجائے سیاسی تناظر میں دیکھا تھا اوروہ یہی سمجھتے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ بھارتی نڑاد امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے یہ سب کچھ کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بھارتی امریکی ووٹ کی اہمیت ہر آنے والے انتخابات میں بڑھتی جارہی ہے۔
سابق نائب صدر جو بائیڈن اس کےبالکل برعکس شخصیت اورنظریات کے حامل ہیں۔ ان کی تین اولین ترجیحات میں امریکہ کا بین الاقوامی کردار، عالمی سالمیت اوربصیرت پر مبنی کردار شامل ہیں۔
ان کا ماضی بے مثال ہے اور وہ نہ صرف 36 سال سے امریکی سینٹ کے رکن ہیں بلکہ باراک ابامہ کے ساتھ 8سال امریکہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ سینیٹ میں وہ سب سے طاقتور فارن ریلیشن کمیٹی میں تین عشروں سے خدمات انجام دے رہے ہیں اوراسکے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ بطورامریکی نائب صدر انہوں نے امریکہ کی افغانستان ، عراق اوردیگرتنازعات کو نمٹانے کےلئے تشکیل دی گئی پالیسیوں میں کلیدی کردار ادا کیاتھا۔بطورچیئرمین فارن ریلیشن کمیٹی ا وربطور امریکی نائب صدر انہیں پاکستان کو قریب سے دیکھنے اوراسکے مسائل سمجھنے کا موقع بھی ملاہے۔
امریکہ کے نائب صدر کے طور پر جو بائیڈن نے 2009ءمیں کیری لوگر بل پاس کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے تحت پاکستان کو 2010ء سے 2014ئ کے درمیان ساڑھے سات ارب ڈالرز غیرفوجی امداد فراہم کی گئی تھی۔ جو بائیڈن متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور2015ئ میں انہیں پاکستان میں جمہوریت اورسماجی ترقی کے حوالہ سے خدمات کے پیش نظرمک کے سب سے بڑے سویلین اعزاز ہلال پاکستان سے نوازا گیاتھا۔ان حالات میں جو بائیڈن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے طویل تجربہ کی بناء پر پاکستان کو درپیش مسائل اورتنازعات کے حل کیلئے کردار ادا کریں گے۔
مثال کے طورپر وہ افغان مسئلہ کے حل کیلئے وہاں موجود امریکی فوجیوں کی واپسی کو افغان ہمسایہ ممالک سمیت تمام فریقین کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں گے۔ یہ صرف خام خیالی نہیں ہے بلکہ بطورامریکی نائب صدر جو بائیڈن ان چند حکومتی ارکان میں سے تھے جو افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کی مخالفت کررہے تھے۔ چین کے پیسیفک ریجن میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کی بصیرت بھی جوبائیڈن جیسے تجربہ کار اورزیرک سیاستدان میں ہی ہوسکتی ہے اوربھارت سے بامعنی مذاکرات کرکے وہ آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کو اپنی معیشت بہتر بناکر آگے بڑھنے کا موقع مل سکے گا۔جو بائیڈن امریکہ کو دوبارہ ورلڈ لیڈر کے طورپر منوانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اگر وہ موسمیاتی تبدیلی، دنیا میں سکڑتی ہوئی جمہوریت اورکرونا کی عالمی وبائ پر عملی پیش رفت دکھانے میں کامیاب ہوگئے۔اس ضمن میں انہیں 2015ءکے پیرس کلائمیٹ چینج اگریمنٹ کے معاہدہ کی تجدید اورٹارگٹس کے حصول کیلئے سامنے آنا ہوگا۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی آمریتوں کے خاتمہ کیلئے جمہوریت نظام کی بقاءکیلئے عالمی سطح پر کوشش کرنی ہوگی اورکرونا وائرس کی وباءکے کنٹرول کیلئے امریکہ کے قائدانہ کردار کا احیاءکرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ جو بائیڈن کو ایک ایسی امیگریشن پالیسی کی ازسرنو تشکیل کرنا ہوگا جو نہ تو اخلاقی دیوالیہ پن کا باعث ہو اور نہ ہی نسل پرستی کی بنیاد پر بنائی گئی ہو جیسا کہ جو بائیڈن کے اس سال ماہ رمضان کے پیغام سے ظاہر ہورہاہے۔
اس پیغام میں انہوں نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اگلے سال امریکی مسلمان ایک مرتبہ پھر اپنے دوستوں اورہمسایوں کے ساتھ اکٹھے ہوکر رمضان میں عبادات کرسکیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو وہ وائٹ ہاﺅس میں عیدملن پارٹی بحال کرکے تمام امریکیوں کےلئے اس کے دروازے کھول دیں گے۔
انہوں نے مسلمان پبلک سرونٹس کےلئے انکی کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے عزم کا بھی اظہارکیا اور تمام امریکی مسلمانوں کو رمضان کی مبارک باد دیتے ہوئے نیک تمناﺅں کا اظہار کیاہے۔امریکی صدارتی امیدوارجو بائیڈن کا پیغام اورانکے اقدامات پاکستان امریکہ تعلقات کے بہتر مستقبل کی نشاندہی کررہے ہیں۔