سوشل میڈیاپر جھوٹ ، نفرت انگیزی اورجذباتی استحصال ان دنوں شرپسندوں، استحصالی اورمذہبی فرقوں کا سب سے پسندیدہ ہتھیاربن چکا ہے۔ حال ہی میں افشاءہونے والے فیس بک پیپرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اس قسم کے منفی ہتھکنڈوں کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔ فیس بک نے ایسی درجنوں تنظیموں کی سکروٹنی کی ہے جو سوشل میڈیا کی پالیسیوں اور اس کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث شرانگیزی میں ملوث تھیں۔ فرانسز ہوگن جنہوں نے فیس بک کے پیپرزکا انکشاف کیاتھا اورامریکی کانگریس اور برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوکر وضاحت دی تھی ، کے مطابق فیس بک انتظامیہ دنیا بھر میں ویتنام اورمیانمر سے لے کر بھارت اورامریکہ تک ڈس انفارمیشن اورنفرت انگیزی کے پھیلائو سے باخبر تھی لیکن اس نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں۔
جنوری 2021ء میں پاکستان میں سوشل میڈیا سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 4کروڑ 60لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی جو ملک کی کل آبادی کے 20.6فیصدکے برابر ہے جو جھوٹ ، نفرت انگیزی و شرپسندی سے یہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔دنیا بھرمیں تیزی سے پھیلتے ہوئے فیس بک کے نیٹ ورک نےاپنے صارفین کے میٹریل کو اپنی آمدنی کاذریعہ تو بنالیا لیکن بدقسمتی سے اسے ریگولیٹ کرنےکی طرف کوئی توجہ نہ کی ۔ایک بین الاقوامی تنظیم نیکسٹ بلین نیٹ ورک کے مطابق فیس بک نے دانستہ طورپر بڑی تعدادمیں کی گئی شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی جن میں نفرت انگیزی کے علاوہ پاکستان ، میانمر اوربھارت میں قتل کی دھمکیوں کیلئے فیس بک کا استعمال شامل تھا۔فیس بک کی سابق ملازمہ کے مطابق نفرت انگیزی اورشرپسندی کی سکروٹنی کیلئے فیس بک کی پالیسیوں میں نہ صرف خامیاں ہیں بلکہ متاثرہ ممالک پاکستان، میانمر اورایتھوپیا کی زبانوں کے تجزیہ کی صلاحیت سے بھی فیس بک عاری ہے۔ یہاں تک کہ فیس بک کی کمیونٹی سٹینڈرڈز میں پاکستان کی قومی زبان اردو کے ترجمہ کی صلاحیت ہی موجود نہیں جس کی وجہ سے فیس بک پر پاکستانی یا اردو صارفین کیلئے جھوٹ، شرانگیزی اورنفرت پرمبنی مواد پر کوئی قانونی ضابطہ موثر اندازمیں لگتا ہی نہیں۔
بین الاقوامی رحجانات کے تحت بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے کمیونیکیشن اوربحث ومباحثہ کے اصول وضوابط میں تبدیلی کی ہے ۔ اوسط درجہ کے صارفین کیلئے خبر وہ نہیں ہوتی جو بڑے نیوز نیٹ ورک فراہم کررہے ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے نیٹ ورک فرینڈز اورفالورز کی خبروں پر زیادہ انحصار کررہے ہوتے ہیں۔ خواہ یہ کسی پرادکٹ سے متعلق ہویا بزنس، سروسز اورغلط پراپیگنڈا کا حصہ ہو بہت سے لوگ اس کی تصدیق کیے بغیر نہ صرف اسے تسلیم کرلیتے ہیں بلکہ اسکے پھیلائو کا بھی حصہ بن جاتے ہیں۔یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ کیسے جھوٹی خبریں اور نفرت انگیزی اس قدر تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سی آئی ٹی ایس (سنٹر فار انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ سوسائٹی) اوراین سی بی آئی (نیشنل سنٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن ) کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق جھوٹی خبروں اورشرانگیزی پھیلانے میں ٹرالز، سوفٹ ویئر روبوٹس اورعام صارفین مشترکہ طورپر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ٹرالز وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اپنے اکائونٹس ہی اس مقصد کیلئے کھول رکھے ہوتے ہیں کہ لوگوں بالخصوص عوامی و سیاسی شخصیات کی تضحیک کی جائے اوران کا مذاق اڑایاجائے، یہ لوگ بلاشبہ ماسٹر آف ڈیزاسٹر ہوتے ہیں جو شرانگیز سکیموں کے ذریعہ معاشرہ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ٹرالز پراپیگنڈا کرنے، جھوٹ اور نفرت انگیزی کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ سوفٹ ویئر روبوٹس (بی او ٹی) تیار ہی اس مقصد کیلئے کیے جاتے ہیں تاکہ مختلف سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کسی بھی خاص واقعہ کو پھیلانے میں مدد حاصل کی جاسکے۔ سی آئی ٹی ایس کے مطابق 2018ء تک فیس بک، ٹوئیٹر اورانسٹا گرام پرایکٹیو بی او ٹی کی تعداد 190 ملین ہوچکی تھی۔ عام صارفین وہ ہیں جو فیس بک اوردیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں اورٹرالز اوربی او ٹی سے متاثر ہوکر وہ غلط ، جھوٹی اور شرانگیزی پر مبنی معلومات پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ عام صارفین کی اکثریت کا یہ ماننا ہوتا ہےکہ وہ جو کچھ پڑھ اوردیکھ رہے ہوتے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے اور اسی باعث وہ اسے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ پاکستان میں سیاسی، سماجی ، لسانی اوردیگرمتنازعہ ایشوز پر بہت عام ہے ۔ ایک پاکستانی این جی او بائٹس فار آل ایسے پراپیگنڈا کو ستمبر 2019ء سے مانیٹر کررہی ہے اس ضمن میں وہ جھوٹی خبروں اور شرانگیزی کے متعدد واقعات منظر عام پر لاچکی ہے۔
حالیہ سالوں میں فیس بک، ٹوئٹراور دیگر بڑی کمپنیوں نے پراپیگنڈا اورنفرت انگیزی کے خلاف بعض سخت اقدامات کرتے ہوئے سیکیورٹی فیچر بہتر بنانے اورایسا مواد ہٹانے کے اقدامات کیے ہیں۔ ان میں مقامی زبانوں میں توہین آمیز اصطلاحات کی فہرستیں بنانے کے علاوہ جعلی اکائونٹس اوربی او ٹی کا خاتمہ کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کی اصلاح اورمسلسل بہتری لانے کی پالیسی شامل ہیں۔ فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر تکنیکی طور پر جو مرضی بہتری لائی جائے مگر کسی شرانگیزی یا جھوٹی خبر کے سبب کسی جان کے ضیاع کی یہ تلافی ہرگز نہیں ہوسکتی ۔میر ے خیال میں حکومتوں اوربالخصوص امریکی حکومت کو سوشل میڈیا پر موثر کنٹرول کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ امریکہ کا فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے خلاف اس ضمن میں سخت ایکشن بین الاقوامی سطح پر بہتری لانے کا باعث ہوسکتاہے۔برصغیر کے خطہ میں پاکستان اوربھارت کی حکومتیں سوشل میڈیا کیلئے نئی قانون سازی کررہی ہیں جس میں ان کمپنیوں کے پاکستان میں دفاتر کے علاوہ بھارت میں تو لوکل اتھارٹیز کے ساتھ روابط کیلئے مقامی سٹاف کی بھرتی بھی شامل ہے۔ فیس بک کو اپنے سٹاف کی سفارشات پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا بھر میں اقلیتوں اورنفرت انگیزی کے شکار طبقات کو تحفظ مل سکے۔
ان نیٹ ورکس پرایسا نظام ہونا چاہئے کہ اپ لوڈ ہونے والے مواد کی کوالٹی اورسچائی کو دیکھاجانا چاہئے نہ کہ کسی بھی مواد کے لائیکس اورکمنٹس سے اس کی اہمیت جانچی جائے۔پاکستانی این جی او بائٹس فار آل کے سینئر پروگرام منیجر اورڈیجیٹل رائٹس ریسرچر ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک ایسے ماحول کی تشکیل کیلئے کردار ادا کریں جس میں رنگ ، مذہب اورصنف کی بجائے باہمی احترام کو مدنظر رکھیں تو اس سے تحمل وبردباری پیدا ہوگی جو ہمیں بہتر اورپائیدار ترقی کے راستہ پر گامزن کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ یہ ایک بہترین آراء ہے جس پر عمل پیرا ہوکر تمام سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے نظام میں نفرت انگیزی کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکتا ہے جو پاکستان اورپوری دنیا کو بہتر اور زیادہ بردباری کی منزل پر لاسکتاہے ۔
Frank F Islam