آج اس لمحہ میں کرونا کے سبب پھیلنے والی عالمی وباءکے حوالہ سے کوئی بات یقینی نہیں ہے کہ یہ کب اورکیسے ختم ہوگی اورجب یہ ختم ہوگی تو یہ پاکستان ، دوسری اقوام اوردنیا پر کیا اثرات چھوڑکر جائے گی۔ تاہم اس وباءکے مقابلہ میں جو ردعمل سامنے آیا ہے ،جو اقدامات کیے گئے ہیں اورجو کچھ اس کے حوالہ سے کیاجاناضروری ہے ،وہ قابل توجہ ہے۔ مجموعی طورپر ناول کرونا وائرس نے پوری دنیا کو معاشی اورصحت کے حوالہ سے بحران سے دوچار کررکھا ہے اور اب تک لاکھوں شہری بیماری کا شکار ہونے کے علاوہ بیس ہزار کے لگ بھک جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
لاکھوں کاروبار بندش کا شکار ہوچکے ہیں، کروڑوں طالب علم شٹ ڈاﺅن کے سبب تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے سے محروم ہوچکے ہیں اوردنیا بھرمیں اس وباءکے تباہ کن اثرات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ حالات بہت برے ہیں لیکن اس سے بدتر صورتحال یہ ہے کہ یہ وباءبیشتر ممالک میں ابھی تک پھیل رہی ہے۔
اس پھیلاﺅ کے حوالہ سے جان ہاپکنز یونیورسٹی کے حوالہ سے بی بی سی کی 23مارچ کی رپورٹ بڑی چشم کشاءہے جس کے مطابق 67دنوں میں COVID-19کے متاثر ہ افراد کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچی تھی جبکہ اگلے 11 دنوں میں یہ تعداد 2 لاکھ تک پہنچ گئی اور محض چار دنوں میں اس وباءنے مزید ایک لاکھ شہریوں کو اپنا شکار بنالیا۔گذشتہ ہفتہ 23مارچ کومیں جب اس کالم کا میں ڈرافٹ تیار کررہاتھا تو امریکہ میں کرونا کے متاثرہ لوگوں کی تعداد 15219اوراموات 201تھیں جبکہ پاکستان میں مصدقہ متاثرین کی تعداد 329تھی جن میں سے بعض اپنی جان بچانے میں ناکام ہوچکے تھے۔گذشتہ روز جب اس کالم کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو امریکہ میں متاثرین کی تعداد 50206اوراموات کی تعداد 637 ہوچکی تھی اورپاکستان میں متاثرین کی تعداد بڑھ کر 803تک جاپہنچی تھی۔
اس تباہ کن صورتحال پر دنیا بھر سے برسراقتدار لوگوں کا ردعمل مختلف انداز میں دکھائی دیا۔ بعض لیڈران نے متوازن طریقہ سے حسب معمول معاشی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے حفظ ماتقدم کے طورپر احتیاطی تدابیر اپنانے پر زوردیا۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے گذشتہ ہفتہ تک اپنے ملک میں کوئی خاص اقداما ت نہیں اٹھائے تھے مگر 23 مارچ کو 422 برطانوی شہریوں کی ہلاک کے بعد انہوں نے پورے ملک میں لاک ڈاﺅن کا اعلان کردیا۔
اسی طرح پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی ابتداءمیں لاک ڈاﺅن کی مخالفت کرتے ہوئے کہاتھاکہ اس کے غریب طبقہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن 22 مارچ کو ہی انہیں ملک کو تمام بین الاقوامی پروازوں کیلئے بند کرنا پڑگیا اورپاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ میں لاک ڈاﺅن کردیاگیا۔ 22جنوری سے ماہ مارچ کے آغازتک امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کرونا وائرس کے پھیلاﺅ اوراثرات کو کم ہی اہمیت دیتے دکھائی دیئے لیکن مارچ کے وسط میں وہ اس عالمی وباءاوراپنے ہیلتھ کیئر کے مشیروں کی آراءکو سنجیدگی سے لینے پر مجبورہوگئے۔
گذشتہ سوموارکو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہاکہ علاج بیماری سے زیادہ سخت نہیں ہونا چاہئے اوراشارتاً کہہ گئے کہ وہ جلد ہی شٹ ڈاﺅن ختم کرسکتے ہیں۔صدر ٹرمپ کے اعلان کے برعکس منگل 24مارچ کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پورے بھارت کو 21 روز کےلئے لاک ڈاﺅن کرنے کا حکم صادر کردیابالکل ایسے جیسے چینی صدر زی جن پنگ نے ووہان میں وباءپھوٹنے کے فوری بعد اسے لاک ڈاﺅن کردیاتھا۔
نریندرمودی نے لاک ڈاﺅن کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہاتھاکہ اگر وہ ان 21دنوں میں خود کو کنٹرول نہ کرسکے تو بھارت 21 سال پیچھے چلاجائے گا۔کرونا کے عالمی وباءکے خلاف اقدامات مختلف ممالک اورمختلف لیڈروں کی طرف سے ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں لیکن جو چیز سب میں مشترک تھی وہ دوسرے ممالک کے لئے اپنے بارڈرز کا بند کرنا ہے۔ بین الاقوامی فضائی اپریشن تقریباً نابود ہوچکاہے۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنا بارڈر مکمل طورپر بند کررکھا ہے جبکہ امریکہ نے میکسیکو کے ساتھ اپنے بارڈر پر آمدورفت پر قدغنیں عائد کردی ہیں۔
امریکہ میں ہی ریاست فلوریڈا کے گورنر نے نیویارک سے آنے والے مسافروں کی ایئرپورٹس پر سکریننگ اوراس کے بعد ایسے مسافروں کو 14روز کےلئے قرنطینہ میں رکھنے کے بعد عوام میں جانے کی اجازت دینے کا حکمنامہ جاری کیاہے۔ واضح رہے کہ امریکہ میں نیویارک کرونا کی وباءکا مرکز ہے اوراب تک امریکہ بھر میں بیماری کا شکار ہونے اورمرنے والوں کی نصف سے زیادہ تعداد کا تعلق نیویارک کی ریاست سے ہی ہے۔
کرونا کی عالمی وباءسے نمٹنے کیلئے اکثریتی ممالک کے ہیلتھ کیئر سسٹم نہ تو تیارتھے اورنہ ہی وہ وباءکے اثرات اور سنگینی کا اندازہ کرسکے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ وباءسے نمٹنے کیلئے اکثر ممالک کے پاس وسائل اورطبی سہولیات کی بھی کمی ہے۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع آمدورفت، تعلیم اورتجارت کی اب نئی راہیں تلاش کی جائیں۔جدت پسندی کے ذریعہ اورابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے استفادہ کرکے اس خوفناک صورتحال کے اثرات سے نمٹنے کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت اب محسوس ہونے لگی ہے جس کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات قابل توجہ ہوسکتے ہیں۔
۱۔ ہیلتھ کیئر سروسز میں انتہائی متعدی امراض کے علاج معالجہ کیلئے مصنوعی ذہانت اورمشینوں یعنی کہ روبوٹس کا استعمال کیاجانا چاہئے۔5جی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ٹیلی ہیلتھ اورٹیلی کانفرنسز کے ذریعے وائرس کی تشخیص اورعلاج معالجہ کو ممکن بنانا چاہئے۔
۲۔بچوں اوروالدین کی راہنمائی کیلئے آن لائن ایپس اورسائٹس کا استعمال یقینی بنایاجاناچاہئے اوراس وقت بھی لاکھوں لوگ فری اورپیڈ سروسز کے ذریعہ اس کا اپنے طورپر استعمال بھی کررہے ہیں۔
۳۔ای کامرس کا استعمال۔ والمارٹ نے چین میں کرونا کی وباءپھیلنے کے دوران آن لائن آرڈرز کی بھرمار دیکھی تھی۔ پاکستان میں بھی آن لائن بزنس بڑھایا جاسکتا ہے اوردراز جیسے پلیٹ فارم روزانہ اوسطاً 50ہزار آرڈرز کی سپلائی کی استعداد کار اب مزید بڑھانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ امریکہ میں آن لائن فوڈ فراہمی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکاہے اور”اما زون“ جیسی کمپنی سامان کی فراہمی اوراپنی سروسز بہتربنانے کیلئے ایک لاکھ مزید ڈیلیوری پرسنز کا اضافہ کررہی ہے۔
۴۔کاروباری اورتفریحی مقاصد کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال گھر کے تمام افراد مختلف ڈیوائسز کے ذریعہ کررہے ہیں جس سے انٹرنیٹ کمپنیوں کے منافع میں ہوشربا اضا فہ ہوجائے گا۔
کرونا کی عالمی وباءکا مقابلہ کرنے کیلئے ایک قوم اوراسکے شہریوں کو اس جدت پسندی کو دو حصوں میں اپنانا ہوگا۔ اول یہ کہ کرونا سے مقابلہ کیلئے مختصر مدت کا ریکوری پلان تشکیل دینا چاہئے اور دوسرا یہ کہ کرونا سے نجات کے بعد طویل المدتی نیشنل ہیلتھ کیئر اورمعاشی نظام کی ازسرنو تشکیل کی جامع منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک کرونا کی عالمی وباءسے مقابلہ کیلئے ہیلتھ کیئر اورمعیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے حوالہ سے اقدامات کی تشکیل میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں حکومت نے 558ملین ڈالرز کا نیشنل ایمرجنسی پلان برائے کرونا کنٹرول کی ورلڈ بینک اورایشین ڈویلپمنٹ بینک کی مدد سے منظوری دی ہے تاکہ ملک میں طب اورصحت سے متعلقہ مسائل حل کئے جاسکیں۔دوسری طرف این جی اوز اورسوشل میڈیا معاشی بحران کے شکار شہریوں کیلئے فنڈ ریزنگ میں مصروف ہیں۔ یہ بہت اہم سرگرمیاں ہیں لیکن ملک و قوم کی خاطر ان سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان سرگرمیوں کو حکومت کے زیرسایہ اورکسی آزاد گروپ کے تحت کرونا کے خاتمہ کے مختصر مدت کے پلان کے تحت قائم کرکے ایک چھتری تلے ، مربوط اورباہمی اشتراک کے ساتھ آگے بڑھایاجائے۔ کوئی بھی مختصر المیعادپروگرام لاک ڈاﺅن اورتنہائی کا شکار قوم کو نارمل حالت میں لانے میں معاون ثابت ہوگا۔
تاہم اس امر کا خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک یا امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کیلئے حالت نارمل کرلینا ایک اچھے مستقبل کی طرف پیش قدمی کیلئے ناکافی ہوگا کیونکہ کرونا کی عالمی وباءنے کئی ممالک کے ہیلتھ کیئر اورمعاشی نظام کی قلعی کھول کررکھ دی کہ یہ ان کے شہریوں کی اکثریت کے مسائل حل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
یہاں معاشرتی عدم مساوات عام ہے۔اس معاشرتی عدم مساوات کے خاتمہ اوربرابری کی بنیاد پر سب کی بہتری کیلئے ہیلتھ کیئر اورمعاشی نظام کے ڈھانچے کی تشکیل کی ضرورت پیش نظر ہونی چاہئے۔ کرونا وائرس کی وباءپھوٹنے سے پہلے اوربعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے زمینی حقائق سامنے رکھ کر ہیلتھ کیئر اورمعاشی نظام کی تشکیل اہمیت کی حامل ہوگی۔ اس میں حقیقت پسندانہ چیلنجز کا حصول سامنے رکھنا ہوگااور ایک مخصوص مدت کے اندر ٹارگٹ کے حصول کی حکمت عملی طے کی جانی چاہئے اوریہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پوراکرنے والا مارشل پلان ہونا چاہئے۔
نیشنل ہیلتھ کیئر اورمعاشی منصوبہ بندی کی تشکیل کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا اوراکیسویں صدی میں بھی اب تک کئی اقوام میں عدم مساوات اپنے عروج پر ہے۔ اگر اس عدم مساوات کا مقابلہ کرکے اسے ختم نہ کیاگیا تو یہ بڑھے گی۔ کرونا کی عالمی وباءیقیناً ایک آفت ہے لیکن بادی النظر میں یہ ایک رحمت بھی ہے اوردنیا بھر کی قوموں اورلیڈروں کو ایک موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔
اگر انہوں نے عملاً ایسا کرلیا تو ہم سب فائدہ مند ہونگے اوراگر ایسا نہ ہوسکا تو اس کے مضمرات بھگتنے والوں میں بھی ہم سب ہی شامل ہونگے۔
Frank Islam, Coronavirus, COVID-19