ہم مسلمانوں کو چار بیویوں کی اجازت کیا ملی کہ ہم عیدیں بھی چار مانگتے ہیں۔ تین کی ہمیں ویسے اجازت ہے اور چوتھی ہم پھڈا ڈال کر منا لیتے ہیں۔ اب اس پھڈے سے مسلمان کمیونٹی دو چار یا آٹھ حصوں میں بٹے ¾ یہ مولوی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ایمان اور اپنے ماتھے پر چار چاند لگا دیتے ہیں۔
اگر یہ چاند نکالنے کا بزنس ڈونلڈ ٹرمپ ¾ کانگریس سینٹ یا ہوم لینڈ سیکورٹی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور یہ مولوی اس کے برخلاف فیصلہ دیتے تو شاید یہ مسلمانان عالم میں یقیناً سرخرو ہوتے ،انہیں دنیائے اسلام کا ہیرو قرار دیتے لیکن نارتھ امریکہ کے آزاد ماحول میں جہاں آپ کو مذہب سے سیاست تک ہر طرح کی آزادی ہے۔ کسی پر کوئی دباﺅ نہیں ، پھر لوگوں میں اتفاق نہ ہو تو ہ مسلمانوں کے ہیرو نہیں بلکہ عقل کے زیرو ہی کہلائیں گے اور وہ بھی ہندسے کے بائیں جانب لگنے والے زیرو جن سے ہندسہ کی ویلیو میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ خواہ آپ کتنے ہی زیرو کیوں نہ لگا دیں۔
سائنس نے ہر شعبہ میں تبدیلیاں لائی ہیں اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہر جگہ ترقی آئی ہے۔ ہم وقت کا اندازہ دھوپ میں لکڑی کے سائے سے نہیں کرتے۔ اس مقصد کے لئے جدید گھڑیوں نے لے لی ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کے لئے اونٹ ، گھوڑے اور ہاتھ کے بجائے کار ،ٹرین اور ہوائی جہاز موجود ہیں۔ نماز اذان کے لئے موذن اونچے جپوترے پر کھڑے ہونے کے بجائے لاﺅڈ اسپیکر کے سہارے اپنی اذان دور تک پہنچاتا ہے۔ لیکن ہم چاند دیکھنے کے لئے اب تک ننگی آنکھ سے دیکھنے پر مصر ہیں اور اس کے نظر آنے اور نظر نہ آنے پر بحث کر رہے ہیں جب کہ عالم اسٹرانومی اتنا ترقی کر گیا ہے کہ وہ آج سے آگے کے سو برس تک بتا سکتے ہیں کہ کب کب چاند نکلے گا۔ ہمارے یہاں بہت سے مسلمانوں( خوجہ مسلمان) کے پاس ایسے کیلنڈر ہیں و اگلے کئی برسوں کی اسلامی تاریخیں بتاتے ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں کے کیلنڈر بھی ہماری طرح چاند کے حساب سے شروع ہوتے لیکن ان کے تہوار اسکولوں کے کیلنڈر میں پہلے سے لکھے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ انہوں نے سائنسی معلومات سے استفادہ کیاہے۔ جب کہ ہم تین دہائی پہلے تک مائیکر فون کو شیطانی مشین قرار دے کر لاﺅڈ اسپیکر پر نماز پڑھانے کو گناہ سے تعبیر کر رہے تھے۔
ستم ظریقی دیکھئے کہ غیر مسلم اور کافر امریکہ چاندپر پہنچ گیا اور ہم مسلمانوں کے نمائندے چاند کے نکلنے کا فیصلہ نہیں کر پاتے۔ دوسری ستم ظریفی یہ ہے کہ عام امریکی مسلمان اکثراسکولوں میں مسلم ہالیڈے تسلیم کروانے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن عید کا دن تعین کرنے میںناکام ،لہٰذااسکول بورڈ بھی ہکا بکا ہے کہ مسلم بچے کس دن آف ہونگے؟
چاند نظر آنے کی سرط دو افراد کی گواہی ہے تا کہ ایک فرد اپنی من مانی سے عید کا تعین نہ کرے۔ لیکن یہاں مسلمانوں کی دو بڑی تنظیمیں اپنی من مانی اور چودھراہٹ کے چکر میں اپنی مسجدا ور عیدیں الگ کر لیتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ اس کے منفی اثرات مسلمانوں اورغیر مسلمانوں پر کس قدر برے نتائج سامنے لائیں گے۔ امریکن مسلمان عیدین پر عموماً افسردہ بھی ہے اور شرمندہ بھی ۔ غیر مسلمان ہیں مضحکہ خیز انداز میں دیکھیں گے اور سوچیں گے کہ عیسائیوں میں فرقے فہی مگر کرسمس تو ایک ہے۔ مسلمانوں کی دوبڑی تنظیموں نے کئی سال دو عیدیں منا کر انہیں ایک فیصد کر دیا ہے۔
اگر ہم برصغیر میں مسلمانوں کی ایک عید اور ان کے کسی معاملے پر متحد ہونے کا جائزہ لیں تو اس کا جواب ہمیں اس شعر میں مل جاتا ہے۔
سینکڑوں خدا ہیں جن کے ایک جگہ کھڑے ہیں
ایک خدا والے سارے بکھرے ہوئے پڑے ہیں
امریکہ میں مسلمانوں کے نمائندوں اور تنظیموں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر عقل سے سوچنا پڑے گا۔سائنسی علوم سے استفادہ سوچنے سمجھنے کا عمل ہیں۔ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم مسلمان ہر فیلڈ میں پیچھے رہ جائیں گے۔
میرا مضمون فنانس ہے اور میں اس حوالے سے بات کروں گا۔ ہم اوسطاً تیس چالیس برسوں سے اس ملک میں ہیں لیکن ابھی تک معلومات کی کمی کے باعث یہاں کے فنانشل سسٹم میں مکمل حصہ نہیں لیا ہے۔ ہچکچاہٹ کی وجہ کم علمی ہے کہ وہ فنانشل پلاننگ کے بیشتر پہلوﺅں کو اسلام کی رو سے حرام سمجھتی ہے۔ نیم حکیم منطرہ مال“ مولوی لوگوں کو سود کا خوف دلاتے ہیں۔جس کے باعث وہ حلال انوسٹمنٹ سے بھی گھبراتے ہیں اور اپنے بڑی رقمیں چیکنگ اکاﺅنٹ میں ڈال چھوڑتے ہیں جہاں بنک تو ان پیسوں سے سود کھاتا ہے مگر ان کے پیسے جوں کے توں پڑے رہتے ہیں۔ دوسری طرف انفلیشن (افراط زر)ان کی رقم کی قوت خرید بھی کم کرتا رہتا ہے۔
تکافل(لائف انشورنس) ایک اور مسئلہ ہے جس پر یہ منطرہ مال“ آپ کو یہ کہہ کر شرمندہ کر دیتے ہیںکہ شاید آپ کو اللہ پر بھروسہ نہیں۔ جب کہ اللہ فرماتا ہے کہ ” اپنے اونٹ کی رسی باندھ کر رکھو“ سونے سے قبل یقینی اپنے مال و جان کی حفاظت کیا کرو۔ اللہ نے نگہبانی کا وعدہ ضرور کیا ہے۔ لیکن ہم پر فرض ہے کہ اپنی محنت جاری رکھیں۔آپ جس دن بھی عید منائیں ¾ آپ سب کو عید مبارک۔