یہ ہیں ڈاکٹرمشتاق احمد مانگٹ۔ ایک سچا،ستھرا،بے لوث، درد دل رکھنے والا دیسی سا اور دیسی پنے پر فخر کرنے والا خوبصورت سا آدمی۔ ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں۔مشتاق بھائی سے 1982 میں تعارف ہوا۔لاہور کی بلدیاتی سیاست میں جناب نواب الدین چودھری مرحوم کی الیکشن مہم میں ھمارے پرجوش لیڈر تھے اور ہم ان کے مقتدی اور کارکن۔مشتاق بھائی آج کل لاہور میں ایک ڈائنگ انڈسٹری چلا رہے ہیں اور جب موقع ملے کسی یونیورسٹی یا کالج میں نوجوانوں کو پڑھاتے بھی ہیں اور عملی زندگی کے لئے رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں۔مجھے کئی سال تک اپنے گارمنٹس یونٹ کے کپڑے کی رنگائی کے لئے مشتاق بھائی کی بھرپورتکنیکی اور عملی رہنمائی اورمعاونت حاصل رھی۔ مشتاق بھائی آجکل “الخدمت “ پاکستان کے نائب صدر ہیں اور ہمہ وقت سماجی خدمت کے کاموں میں منہمک اور پاکستان کے طول و عرض میں مصروف عمل۔حال ہی میں، میں نے وڈیو دیکھی جس میں انھوں نے ملتان میں شروع کئے گئے چار سو بستروں کے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال کا دورہ کروایا اور اس کا ایک مختصر تعارف پیش کیا۔ یہ ہسپتال “الخدمت”نے آسٹریلین پاکستانی تنظیم “چیریٹی آسٹریلیا” کے تعاون سے شروع کر رکھا ہے۔
ملتان اور گرد و نواح کے عوام کیلئے یہ پراجیکٹ یقینا” کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نھیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں “الخدمت” ھر محاذ پر ہراول دستے کا حصہ رہی ہے۔یاد رہے کہ اسی جدو جہد میں “الخدمت” کے کئی فرنٹ لائن کارکن، ڈاکٹرز اور مقامی عہدیدار کرونا کا شکار ہوئے اور اس جنگ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔مشتاق بھائی بتا رہے تھے کہ وہ لوگ آج کل حکومت پاکستان کو دی گئی ایک تجویز کی اجازت کے انتظار میں ہیں کہ جس کے تحت دوسری چھوٹی بڑی این جی اوز کے ساتھ ملکر ایک کنسورشیم بنا کر ویکسین لگانے کا منصوبہ ھے کہ جہاں پرائیویٹ ادارے بارہ سے پندرہ ھزار روپے میں ویکسین لگا رھے ہیں، ان کا کنسورشیم تین سے چار ہزار روپے میں بڑے پیمانے پر پاکستان بھر میں یہ ویکسین لگانے کا کام سر انجام دے سکتی ھے۔ نہ صرف الخدمت کے اپنے 42 ہسپتال اور 52 لیبارٹریز بلکہ دوسری این جی اوز کے انفرسٹرکچرز اور دوسرے بڑے چھوٹے ادارے بھی اس کام میں عملی مدد کریں گے اور یوں پاکستان کے کم از کم دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگانے کا کام جنگی بنیادوں پر اور نہایت کم قیمت پر سر انجام دیا جا سکتا ہے۔گزشتہ ایک سال سے کرونا وبا کے بعد سے “الخدمت” کے کارکنان عوام کے ساتھ ملکر نہایت منظم انداز میں گھر گھر جا کر لاکھوں ضرورت مندوں کو اشیائے خوردونوش،ادویات اور نقد عطیات مہیا کر رھے ھیں۔
اپنے بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں کہ جب ہم کرشن نگر (اسلام پورہ)اور ارد گرد کی آبادیوں میں عید قربان پر گھر گھر جا کر کھالیں اکٹھی کرتے اور لا کر جماعت اسلامی کے عمر روڈ والے کیمپ میں سر عاشق اور خواجہ یونس صاحب کے حوالے کر دیتے۔ان کھالوں کی رقم سے شروع کئے گئے چھوٹے چھوٹے پرجیکٹس آج کے پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر سماجی خدمات کا سب سے بڑا نظام بن چکے ہیں۔ جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں پاکستان بھر میں ایک بہت بڑا ریسورس انفراسٹرکچر قائم کیا ہوا ہے۔ تھر کے صحرا میں صاف پانی کے، صحت اوربنیادی تعلیم کے کئی پرجیکٹس کام کر رہے ہیں۔ سندھ کے دیگر پس ماندہ علاقوں میں ھندو مسلم کی تفریق سے بالاتر ہر کر سماجی بھلائی کے کئی چھوٹے بڑے پرجیکٹس لوگوں کی خدمت میں لگے ہیں۔ گزشتہ سال جب بھارت میں مسجدیں گرائی جا رہی تھیں، مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیاجا رہا تھا تو جماعت اسلامی کے کارکنان اندرون سندھ ھندو آبادیوں اور ان کے مندروں میں جراثیم کش سپرے کر رھے تھے، ماسک پہنچا رھے تھے، انھیں راشن اور دوائیں فراہم کرنے پر کمر بستہ تھے۔اسی الخدمت کے تحت پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں دیہاتوں میں سکول، ہسپتال ، صاف پانی کے بے شمار منصوبے کام کر رہے ہیں۔
یہاں امریکہ میں بیٹھ کر شاید آپ لوگوں کو اندازہ نہ ھو کہ مشتاق مانگٹ اور انکے ساتھی بلوچستان کے پہاڑوں اور ریگزاروں میں تعلیم اورصحت اور پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے شروع کرچکے ہیں۔ “الخدمت” نے 2005 میں کشمیر کے زلزلے میں یتیم ہونے والے ہزاروں بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا۔ان بچوں کو فیملی ھاو¿س اور بورڈنگ سہولت والے سکولوں میں منتقل کیا گیا۔
پاکستان بھر میں “الخدمت” کی جانب سے 15000 کے قریب یتیم بچوں کی مکمل کفالت کی جا رہی ہے ،ہزااروں بیوہ اور بے سہارا خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا،ان کی امداد اور رہنمائی کر کے خود کفالت تک پہنچانے کا کام جاری و ساری ھے۔ غریب نوجوانوں کو مائیکرو کریڈٹ سکیمز کے تحت بلا سود چھوٹے قرضے اور رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔ کے پی کے صوبہ کے دور دراز مقامات پر ڈسپنسریاں، سکول، ہسپتال اور پانی کے پرجیکٹس جاری ھیں جن سےان پس ماندہ علاقوں کے عوام فیض یاب ہو رہے ہیں۔
میرے کئی دوست کالج کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبا سے متعارف ہوئے اور پھرعملی زندگی میں داخل ھوتے ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوتے چلے گئے اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پچھلے پینتیس چالیس سال سے دن رات رضا کارانہ طور پر سماجی زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں اپنے محروم اور مستحق ہم وطنوں کی خدمت میں ج±تے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کسی پر احسان نھیں کر رہے بلکہ اپنے فرائض پہچان کر،اپنے لوگوں کے حقوق ادا کر کے رب کی رضا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کی سیاسی پالیسیوں پر میں اپنے پرانے دوستوں کو بڑے کھلے ڈلے اختلافی نوٹس بھجواتا رھتا ہوں، چھیڑ چھاڑ کرتا رھتا ھوں، وہ سنتے ھیں پڑھتے ھیں، کہ لوگ اتفاق بھی کرتے ہیں ،مسکراتے بھی ھیں مگر اپنی دھن اور نظم و ضبط کے پکے ھیں لہذا سوچتے اور کرتے وہی ہیںجسے ان کا جماعتی نظم ہدایت کرے۔ بہر حال سماجی شعبے میں جماعت اسلامی کے رھنماو¿ں اور کارکنوں کی ہمت،لگن اور عملی خدمات دیکھ کر ایک نیاحوصلہ ملتا ھے، امید کی کرن روشن رھتی ھے۔عوام بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کی امانت و دیانت اور قابلیت پر اعتماد رکھتے ھیں، عطیات بھی دئے جاتے ہیںاور انکی سماجی خدمات کے معترف بھی ھیں۔آپ میں سے کوئی دوست پاکستان جائیں تو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جماعت اسلامی کی سماجی انفراسٹرکچر کی ترقی کی عملی مثالیں دیکھئے۔حوصلہ افزائی کیجئے اور کمی کمزوری دیکھیں تو نشاندھی کیجئے اور رہنمائی بھی۔یہ پرجیکٹس آپکو تمام پاکستان میں مل جائیں گے؛ سندھ، بلوچستان، پنجاب، کے پی کے اور کشمیر۔اگر امریکہ میں ھی دیکھنا ہو تو اکنا، ہیلپنگ ہینڈ اور برادر شبیر گل اور ان جیسے کئی اورہیرے جیسے لوگوں کی مثالیں ھمارے سامنے ہیں، یہ سب لوگ طالب علمی کے زمانے میں جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے، اس کے پیغام کو سمجھا اور پھر رب کی رضا حاصل کرنے کے رستے پر وقف کر دیا خود کو اور اب تک اللہ کے بندوں کے حقوق پورے کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اور مرتے دم تک اسی روش پر گامزن رہیں گے۔اگرچہ پاکستان میں ووٹ نھیں ملتے جماعت اسلامی کو مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اپنی دھن کے ان پکے پیٹھے درویشوں اور ملنگوں کو۔اپنے حصے کے چراغ جلا رہے ہیں، روشنی کی چھوٹی بڑی کرنیں بکھیر رھے ھیں۔ایک اور بات سانجھ کروں گا آپ سے کہ جب جب الیکشن کے نتائج سامنے آئے اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کے ووٹ دیکھنے پڑھنے کو ملے تو ایک شعر ضرور یاد دلانے کی کوشش کی ھے میں نے اپنی قوم کو دل ھی دل میں:
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی