" "
پاکستان

اپوزیشن میں سے چور دروازے سے حکومت کی حمایت کس نے کی ؟ سینٹ میں تحاریک عدم اعتماد کے بعد بڑا سوال پیدا ہو گیا

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے صورتحال پر کڑی تنقید کی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ دونوں قیادتیں سخت نالاں ہیں لیکن سیاسی پنڈتوں کے مطابق تحاریک عدم اعتماد کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپوزیشن میں کوئی نہ کوئی اندر کھاتے حکومت کی خفیہ سپورٹ کررہا ہے

اسلام آباد(اردو نیوز) چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کی اپوزیشن اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی تبدیلی کی کوششیں ناکام تو ہوگئیںلیکن بڑا سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کی صفوں میں سے چوردروازے سے حکومت کی حمایت کس نے کی ؟تحاریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے صورتحال پر کڑی تنقید کی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ دونوں قیادتیں سخت نالاں ہیں لیکن سیاسی پنڈتوں کے مطابق تحاریک عدم اعتماد کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپوزیشن میں کوئی نہ کوئی اندر کھاتے حکومت کی خفیہ سپورٹ کررہا ہے ۔
سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر رائے شماری ہوئی۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی۔پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ آئین کے مطابق قرارداد کے حق میں 50 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ قرارداد مطلوبہ ایک چوتھائی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے جب کہ 5 ووٹ مسترد ہوئے۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک ناکام ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔سلیم مانڈوی والا کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 32 ووٹ آئے۔چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے عمل کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی جس کی تصدیق کے لیے ووٹنگ کرائی گئی اور 64 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر راجا ظفر الحق کی قرارداد کی حمایت کی۔اراکین کی جانب سے قراداد کی حمایت کے بعد پریزائیڈنگ افسر نے اراکین کو تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی اور حکومت کی جانب سے نعمان وزیر کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا۔سینیٹر حافظ عبدالکریم نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا اور 104 سینیٹرز میں سے 100 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے۔
جماعت اسلامی کے دو اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جب کہ ن لیگ کے چوہدری تنویر نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اسحاق ڈار نے تاحال سینیٹ کا حلف ہی نہیں اٹھایا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے نمبرز گیم کی جنگ سے قبل سیاسی گرما گرمی عروج پر رہی اور دونوں جانب سے عددی اکثریت کا دعویٰ کیا جاتا رہا۔اس سیاسی گرما گرمی میں دونوں جانب سے عددی اکثریت ظاہر کرنے کے لیے سینیٹ ارکان کی میٹنگز، کارنر میٹنگز، ناشتے، ظہرانے اور عشائیے رکھے گئے۔
اپوزیشن نے صادق سنجرانی کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔

Pakistan Senate, no confidence vote

Related Articles

Back to top button