آہ، شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید
تحریر : سلمان ظفر (صدر،پاکستان پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس ونگ ،امریکہ )
ڈکٹیٹر ضیاالحق نے ذولفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹا جو کہ ایک بہت بڑی بیرونی سازش کا حصہ تھا اور اُس سازش کا مہرا ایک ڈکٹیٹر کو بنایا گیا۔ اس کے بعد ڈکٹیٹر نے پیپلز پارٹی پر مظالم ڈھالنے شروع کر دئیے ۔ سر عام کوڑے مارنے شروع کیے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو کو جیل میں ڈال دیا اور پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم بنائی دی۔ ضیاءلحق کی موت کے بعد بینظیر جلا وطنی باہر گزار کر پاکستان واپس آ گئیں اور وزیراعظم بن گئیں۔
اس کے بعد غلام اسحق نے بی بی کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا مگر اس کے باوجود ہمت نہ ہاری اور سیاسی جدوجہد کرتی رہیں اور دوبارہ وزریراعظم بن گئیں۔
اُن کی مدت پوری پونے سے پہلے ہی اُن جو وزارت عظمی سے پھر فارغ کر دیا گیا اور الیکشن میں مسلم لیگ ن برسر اقتدار آ گئی اور ان کا تختہ ڈکٹیٹر پرویز م±شرف نے الٹا دیا۔ اس کے بعد بینظیر دوبارہ جلاوطنی میں چلی گئیں کیونکہ ڈکٹیٹرز بھٹو خاندان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور بینظیر کو جان کا خطرہ تھا۔
پرویز مشرف کے آخری دنوں میں جب انتخابات ہونے والے تھے تو بینظیر نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو پرویز مشرف نے ا±ن کو کہا کہ زمینی حالات ٹھیک نہیں پاکستان نہ آئیں اب پتہ نہیں ،مشرف کو خوف تھا کہ وہ پاکستان آ گئیں تو مشرف کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔
مگر بینظیر، قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹوکی بیٹی تھی اور وہ ایک نڈر عورت تھیں ،انہوں نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا اور پاکستان پہنچ گئیں۔ کراچی پہنچنے پر اُن کے قافلے پر بم دھماکہ کروا دیا گیا مگر بی بی حالات سے مقابلہ کرنا جانتی تھیں۔
اس کے بعد راولپنڈی میں جلسہ کیا اور جب وہاں سے واپس جا رہی تھیں تو اُن کو بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا اور پرویز مشرف اور سازشیوں کی سازش کامیاب ہو گئی اور بی بی کو اس دنیا سے رخصت کر دیا گیا۔
ایک ایسی لیڈر تھیں جن کا پاکستان میں کوئی متبادل نہ ہو سکا ۔اب ا±ن کی بیٹی آصفہ سیاست کے میدان میں ا±تری ہیں اور وہ بی بی کی کمی کو پ±ورا کر سکتی ہیں۔
بی بی تیرے جاں نثار بے شمار
بی بی نے شہادت قبول کی اور وہ آج بھی زندہ ہے۔