پاکستانبین الاقوامی

کشمیری قیادت بات چیت کرے تو فریق ممالک کی قیادت پر دباو کم ہونے سے مسلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری

انڈیا کو افغانستان سے سبق سیکھنا چاہئیے ،صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا ڈاکٹر آصف رحمان کے استقبالیہ سے خطاب

نیویارک (اردونیوز )پاکستانی و کشمیری امریکن کمیونٹی کی معروف سماجی شخصیت اور پاکستانی امریکن فزیشن کی تنظیم ”اپنا“ کے سابق سنٹرل پریذیڈنٹ ڈاکٹر آصف رحمان کی جانب سے بیرسٹر سلطان محمو دچوہدری کے اعزاز میں صدر آزاد جموں و کشمیر منتخب ہونے کے بعد پہلی بار نیویارک آمد پر استقبالیہ دیا گیا۔ڈاکٹر آصف رحمان کی رہائشگاہ پر دئیے گئے۔
استقبالیہ میں امریکہ کے دورے پر آئے کشمیر کمیٹی کے چئیرمین شہریار آفریدی نے بھی خصوصی شرکت کی۔ استقبالیہ میں پاکستانی امریکن کمیونٹی کی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات ڈاکٹر ناصر گوندل، ڈاکٹر شہزاد اقبال، ڈاکٹر طارق جمیل،ڈاکٹر افضل ملہی،ڈاکٹر ضیاءفرخ، ڈاکٹر عابد شیخ،ڈاکٹر جی اسلم، ڈاکٹر چوہدری، ڈاکٹر خالد،سردار سوار خان، واجد خان،عظیم میاں، مدثر چوہدری، قاضی مشتاق، نعیم ملک،اعجاز شاہ،شکیل شیخ ، ارشد چوہدری دیگر شامل تھے۔
بیرسٹرسطان محمود چوہدری جب استقبالیہ میں پہنچے تو ڈاکٹر آصف رحمان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ، شرکاءسے ان کا تعارف کروایا۔ شرکاءکی جانب سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو صدرمنتخب ہونے پر مبارکباد دی گئی۔ڈاکٹر آصف نے آزاد کشمیر کے صدر،شہرآفریدی اور دیگر معزز مہمانوں کو اپنی رہائش گاہ پر خوش آمدید کہا۔ انہوں نے بیرسٹر سلطان محمود کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک طویل عرصہ سے امریکہ، یورپ سمیت دنیا بھر میں کشمیر کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فزیشنز لیڈر شپ اور میڈیا کے بھی شکرگزار ہیں جنہوں نے انکی دعوت پر برنچ میں شرکت کی.یوں تو بیرسٹر سلطان کی تمام عمر کشمیری عوام اور کاز کی وکالت اور جدوجہد میں گزری ہے تاہم اب صدر آزاد کشمیر کی حیثیت سے وہ کسطرح سے کشمیر کا مسئلہ بین القوامی فورمز پر اٹھاتے ہیں۔ اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہورہا ہے اس تناظر میں کشمیر کا مسئلہ مزید اجاگر ہوسکتا ہے۔


استقبالیہ سے خطاب کے دوران صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے دورہ امریکہ ، اقوام متحدہ ، کشمیر اور پاک بھارت صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ و آزاد کشمیر کی کشمیری قیادت کو آپس میں بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کا موقع دیا جائے تو فریق ممالک کی قیادت پر موجود دباو¿کم ہو جائے گا اور مسئلہ کے حل میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ دونوں اطراف کے کشمیری آپس میں مل بیٹھیں اور آپس میں بات کریں تو اس مسئلہ کشمیر کے حل میں پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر دونوں اطراف کے کشمیری آپس میں بات کرتے تو اس کا پریشر یقینی طور پر انڈیا پر جائے گا اور مسئلہ کشمیر حل ہونے میں آسانی پیدا ہو گی۔ ایک بار ہمیں کھٹمنڈو میں بیٹھنے کا چانس ملا تھا اور مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کے لئے اجلاس میں امریکن ¾جرمن اور تمام ممالک کے نمائندے شامل تھے۔ اور اس میں ہم نے درخواست بھی پیش کی تھی کے دونوں اطراف کے کشمیریوں کو مسئلہ حل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اور کشمیریوں کی رائے کا احترام کیا جائے۔ جس میں یوسف رضا گیلانی صاحب تھے یاسین ملک صاحب اور دیگر لیڈران شامل تھے۔ او آئی سی کی پالیسی بھی بہتر ہے۔ جیسا کہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلہ پربھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اورپاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر طرح کی ثالثی کا کردار ماننے کے لئے بھی تیار ہے جیسا کہ صدر ٹرمپ نے بھی اس سلسلے میں دونوں فریقین سے مسئلہ کے حل کے بارے بات چیت کی تھی۔ جیسا کے آپ جانتے ہیں کہ انڈیا کسی بھی پر نہیں آرہا۔ انڈیا کی پالیسی اور خیال یہ ہے کہ اگر ہم تھوڑا ماننے گے تو شاید سارا ہی ماننا پڑے گا۔ اس لئے انڈیا مسئلے کشمیر کے حل کے لئے کسی بھی پلیٹ فام پر بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جیسا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اس مسئلے پر کافی کوششیں کی ہیں لیکن یہ بھی انڈیا نے ماننے سے انکار کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی ملک طاقت کے بل بوتے پر دوسری ملک کو نہیں دبا سکتا۔ جیسا کے افغانستان میں کئی سالوں تک یونائیٹڈ افواج رہیں اور جس پر صدر جوبائینڈن نے خود اقرار کیا کہ ہمیں اس جنگ میں کئی بلن ڈالر لگا چکے ہیں۔ لیکن مسئلہ بھی حل نہ ہو سکا۔ اور امریکن فوجوں کو واپس جانا پڑا۔ اس طرح مسئلہ بھی بات چیت سے حل ہوگا۔ جنگ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ جیسا کہ افغانستان کا مسئلہ صلح صفائی سے حل ہو گیا۔ جیسا کہ طالبان آئے اور غنی حکومت رکاوٹ ہی نہ بن سکی۔ تو اس مسئلے پر بہتری آگئی۔ اس کے لئے کچھ نہ کچھ جرات مندی سے بات کرنا پڑتی ہے تب جا کر معاملات حل ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے پر خود امریکن کہتے ہیں کہ اس جنگ میں پاکستان میں نے بھی بہت نقصان اٹھایا ہے۔ کئی پاکستانی شہید ہوئے اور اس مسئلے پر پاکستانیوں کو کتنی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں وہ پاکستان ہے۔ سب سے زیادہ مسائل پاکستان میں آئے۔ اس مسئلے پر امریکن کو بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان نے ان کا ہر مشکل مرحل میں ساتھ دیا۔ تو امریکہ کو بھی اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے۔
افغانستان میں جو ہونا تھا اب شاید ہوگیا ہے۔ اور افغانیوں کو بھی ایک اور لڑائی لڑنے سے بہتر ہے کہ اس مسئلے کو صلح صفائی سے حکومتی معاملات حل کئے جائیں۔ ہماری سیکرٹری جنرل صاحب سے ملاقات ہوئی وہاں ہم نے افغانستان کے حوالے سے بات کی وہاں ہم نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی بات کی۔ لیکن انڈیا اپنے تمام وعدوں سے مکر رہا ہے۔ حالانکہ انٹرنیشنل کمیونٹی بھی یہی چاہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر جلد از جلد حل ہو۔ اور ہمیں اس مسئلے پر انٹرنیشنل لیول پر اجاگر کرنا چاہئے۔ تا کہ مسئلہ کے حل کا بہتر طریقہ نکالا جائے۔
بیرسٹر سلطان نے چونکہ واشنگٹن ڈی سی روانہ ہونا تھا اسلئے وہ جلدی چلے گئے. بعدازاں کشمیر کمیٹی کے چئیرمین شہریار آفریدی ڈاکٹر آصف کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے اپنے میزبان اور دیگر مہمانوں سے ملاقات کی۔شہریار آفریدی نے ڈاکٹر آصف کی پرتکلف میزبانی اور انکی دعوت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنے دورے کے حوالے سے بات چیت کی۔ کشمیر کمیٹی کے چئیرمین نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کشمیر کے سلسلہ میں بہت سنجیدہ ہےاور ہم ہر فورم پر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس سے خطاب میں ایک بار پھر کشمیر کا موقف ٹھوس انداز میں پیش کیا ہے۔

Related Articles

Back to top button