جین مندر والی درستگی کرتے وقت خیال آیا کیوں نہ پوسٹ پر ایک عنوان بھی لگا دیا جائے !! جین مندر سے “کڑی دے باغ” تک ۔کرشن نگر کی کہانی تو آپ کو سنا چکا، اب آپ کو پرانی انارکلی لئے چلتے ھیں کہ جہاں ایک مہم جو فرانسیسی باپ اور اس کی بیٹی کی کہانی دریافت کی ھے جناب شعیب بن عزیز نے۔ کرشن نگر والی میری تحریر جناب شعیب بھائی نے بھی پڑھی اور بھرپور حوصلہ افزائی سے نوازا۔ دنیا بھر سے شائقین اردو شعر و ادب شعیب بن عزیز صاحب کی منفرد شاعری اور خوبصورت شخصیت کے مداح ھیں۔اگرچہ شعیب بھائی خود نمائی سے احتراز ھی کئے رکھتے ھیں۔آپ لوگوں نے شعیب بھائی کا یہ شعر تو سنا ھی ھو گا اور کئی اس سے گھائل بھی ھوئے ھوں گے کہ:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ھوتا ھے اس طرح کے کاموں میں
اور اسی غزل کا ایک اور بہت بڑا شعر کچھ یوں ھے:
دوستی کا دعوی کیا، عاشقی سے کیا مطلب !
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
میرے لئےبڑے اعزاز کی بات ھے کہ میری تحریر کو جناب شعیب بن عزیز نے پذیرائی بخشی۔کرشن نگر و یرانی انارکلی اور شھر لاھور کا تذکرہ ھو رھا ھے تو یہ بات کرنا بھی برمحل ھےکہ لاھورشھراور
اس کے باسیوں کے لئے شعیب بھائی نے ایک لازوال قسم کی منظوم دعا بھی کر رکھی ھے جس کا مطلع تو سراسر آج کے مسلم حکمرانوں کی بزدلی، بےبسی اور ب حسی کا نوحہ ھے :
کہاں لے جاو¿ں یہ فریاد مولا !
مرا بصرہ مرا بغداد مولا !
اسی نظم کے آخری اشعار میں کچھ سال پہلے تک لاھور میں ایک تسلسل سے ھونے والے خون رنگ دھماکوں سے نجات کی دعا کچھ ان الفاظ میں کی گئی :
یہ جان و مال میرے تجھ پہ صدقے
ترے محبوب پر اولاد مولا
مرے لاھور پر بھی اک نظر کر
ترا مکہ رھے آباد مولا !
شعیب بھائی نے کرشن نگر سے متصل پرانی انارکلی میں مدفون تاریخ کے دو کرداروں کو قارئین کے لئے پھر سے زندہ کر ڈالا۔ پرانی انارکلی سے جڑے ”کڑی دا باغ” عنوان کے تاریخ کے اس ورق کو پڑھ کر میرے کیا اثرات رہے، وہ بھی بلا تکلف آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
“کڑی دا باغ” پڑھنے سے قبل میں پرانی انار کلی کی اس تاریخ سے قطعی نا آشنا تھا۔ ہاں، یوسف فالودہ شاپ، پیراڈائز کینٹین،المجید بیکری یا کھانے پینے کی کچھ اور شاپس اور ٹھئیوں کے ذائقے اس ناچیز کی نوک زباں کے حسیاتی خلیوں پر ابھی بھی تازہ ھیں۔ موج دریا دربار اور پرانا ھیلی کالج آف کامرس اور لیڈی مکلیگن سکول اور انکم ٹیکس بلڈنگ، آڈیٹر جنرلز بلڈنگ اور اس کے نیچے چائے کا ٹھیلا ۔۔۔ سنا تھا وہ چائے میں بھنگ کے پتوں کی آمیزش کر کے دودھ یتی بناتا تھا اور ارد گرد دفاتر کے سینکڑوں لوگ اس چائے والے کے مریض بن چکے تھے۔ پھر راز آشکار ہو گیا اور کچھ عرصہ یہ صاحب تھانہ پرانی انارکلی کی حوالات میں بھی بند رھے۔پرانی انارکلی کا تھانہ بھی تو غالبا” برصغیر پاک و ھند کے قدیم ترین تھانوں میں سے ھے۔ انیسویں صدی کے وسط سے قائم ھے اور غالبا” اس وقت کی فارسی میں لکھی گئی رپورٹس اور روزنامچے بھی تھانے کے ریکارڈ میں مو جود ھیں۔سٹوڈنٹ لائف کے پکڑ دھکڑ کےدنوں میں اس تھانے سے کچھ شناسائی بھی رھی۔اسی تھانے میں تعینات ایک اہلکارنے ایک بار بتایا کہ ایم۔کیو۔ایم والے الطاف بھائی ایک زمانے میں کراچی سے مفرور ھو کرھندو کیمپ، سنت نگر میں رہائش پذیر تھے۔ اسی زمانے میں ان پر قتل کا ایک مقدمہ دائر ہوا اور وہ تھانہ کرشن نگر و پرانی انارکلی کی حوالات میں بھی کچھ وقت گذار چکے ہیں۔ بقول اس حوالدار کے الطاف حسین کے خلاف قتل کی یہ ایف۔آ،ئی۔آر تھانہ کرشن نگر میں کاٹی گئی تھی۔
تھانے سے ذرا آگے کو جائیں تو جین مندر بھی پرانی انارکلی کا تاریخی ورثہ ھے۔ گرا دیئے جانے کے باوجود پرانی انارکلی کی تاریخ میں سے شاید ھی نکل پائے خواہ اس کے درو و دیوار اور اس کی بنیادوں کی مٹی بھی کچھ اور سالوں بعد غائب ھی ھو جائے۔ اجودھیا میں جب ھندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کے در و دیوار پر دھاوا لگایا تو اگلے ھی دن لاھوریوں کے ایک گروہ نے بھی لارڈ میئر عرف اس وقت کے ایک نمایاں “شیر لاھور” مرحوم خواجہ ریاض محمود کی عظیم الشان اور شجاعت سے بھرپور قیادت میں جین مندر کے بچے کھچے در و دیوار کو بھی مسمار کر مارا۔ ستم± ظریفی تو یہ کہ “جین مت مندر” ہندوو¿ں کا مندر نہیں ہے بلکہ ایک جین مندر ہے۔ اور جینی خود صدیوں تک برہمنوں کے ظلم و تشدد کا نشانہ رہے ہیں۔ مگر مئیر مرحوم تو اس بات سے بھی لاعلم تھے کہ مندر و مسجد مسمار کردیئے جائیں تب بھی قائم دائم ھی رھتے ھیں۔ مگر عقیدت مند دلوں میں بسی ان عبادت گاھوں کو ھمارے ھاں کے خوش خوراک حکمران نھیں دیکھ سکتے۔ لارڈ میئر ھوں یا وزیراعظم، ھماری نظریں تو اچھا برا نان نفقہ دیکھتے ھی پھٹی پڑتی ھیں، لذات کام و دھن سے احتراز کرتے تو جیسے ھمارے حکمران طبقات کی بینائی ھی سلب ہو جاتی ھے، دلوں میں قائم دائم عقیدت کے گھروندے تو صرف وہ کوئی ھی دیکھ پاتا ھے کہ جس نے اینے دل میں تھوڑی سی جگہ ھی اینے رب کے لئے بھی رکھ چھوڑی ھو، خواہ محبت سے، خواہ خوف سے! خیر مرحوم لارڈ مئیر صاحب جین مندر کو تو ضرور گرا گئے اینے صحت مند ہاتھوں سے۔ اگلے دن کے قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں اس مندر کے ملبے کو ٹھوکریں لگاتی ان کی ایمان افروز تصاویر بھی بطور آرکائیوز رسید ہو گئیں۔ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ مگر جین مندر کے کھنڈر آج کے حکمرانوں کو ایک بار یھر موقع دیا چاھتے ھیں۔اسلام آباد کو چھوڑیں،اسی پیسے سے پرانی انارکلی میں موجود ان بنیادوں پر دوبارہ وھی سینکڑوں سال پرانا تاریخی مندر دوبارہ کھڑا کر دیں۔ نہ صرف اس مندر میں ایک بار پھر بجنے والی گھنٹیاں اور مندر کے پجاری حکمرانوں کے نام کی مالا جپیں گے بلکہ کسی عبادت گاہ کو مسمار کر کے قوم کے ماتھے یر جو سیاہ دھبہ لگایا گیا تھا وہ بھی دھل پائے گا۔
ہاں یاد آیا پرانی انارکلی میں موجود یوسف فالودہ شاپ کے بالمقابل ایک بلڈنگ کی دکانون ایک جفت ساز بہت معروف تھا اینے کام کے حوالے سے۔ اس کی دکان کے ماھر کاریگر جوتوں کی refubrishing بڑے کمال کی کیا کرتے تھے۔ سال دو سال ایک ھی جوتا استعمال کرنے سے اس غریب کے اعصاب و عضلات مضمحل و مدقوق ھو جایا کرتے تھے، یہ کاریگر ایسی کیمیاگری کرتے کہ جوتا تندرست و توانا بلکہ ھٹا کٹا ھو جاتا۔ اور جوتے کا تلوا تو اس مہارت سے بدلتے کہ مرمت شدہ جوتا پاو¿ں میں پہنتے ھی چال میں کڑک آ جاتی گویا اس کاریگر آدمی نے اسے برابر والے حکیم صاحب کے لبوب کبیر کے کسی مرتبان میں شب بھر کو بھگوئے رکھا ھو۔ مرمت خواہ جوتے کے کسی بھی جزو کی ھو، جوتے کے دونوں پاو¿ں کا منہ ماتھا اس طرح سے چمکا لشکا دیتے گویا ابھی باٹا کے ڈبے سے نکلا ھو۔ بہرحال باٹا کی بی۔پیئر شاپ سے سال دو سال قبل خریدا گیا یہ جوتا ڈریس کم کیثول استعمال کے لئے ایک بار پھر ھشاش بشاش ھو چکتا۔
چمکتی لشکتی چم چم کرتی،چوں چوں کی آواز نکالتی منقش چپلوں اورزرق برق موتیوں سے لبریز کھسوں کے لئے اندرون ٹکسالی گیٹ شاھی محلہ بڑا مشہور ھے۔ لیکن لاھور کا پہلا باقاعدہ شاھی محلہ اصل میں انگریز سرکار کے ابتدائی دور میں خاص انگریزی سپاہ کی تفریح طبع کے لئے پرانی انارکلی میں ھی قائم کیا گیا تھا۔ بعد کے ادوار میں اسے لوھاری دروازے اور یھر ٹکسالی دروازے کے اندر موجودہ علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔ چند دھائیاں پیشتر جب موجودہ علاقے سے ان محنت کش خواتین اور ان کے اھل خانہ کی مکمل بیخ کنی کی کوشش کی گئی تو پھر یہ لوگ شھر لاھور کی دیگر آبادیوں میں منتقل ھوتے گئے۔
تو جناب پرانی انارکلی کی ھمسائیگی میں رھنے کے باوجود میں تو پرانی انارکلی کے تین چار اھم مقامات کی یاد دھانی ھی کر پایا۔ جبکہ یہ “کڑی دا باغ” اور اس میں قریب ڈیڑھ سو سال سے خوابیدہ دونوں کردار میری معلومات یا مطالعے میں ھرگز نہ تھے۔ لاھور کی تاریخ کا یہ نو دریافت شدہ تایخی ورثہ ھماری ھمسائیگی میں منوں ٹنوں مٹی میں دبا پڑا تھا اور جو شعیب بھائی نے کسی ماھر آثار قدیمہ کی مانند کھرچ نکالا ھے۔ لیجئے ،آپ بھی پڑھئے اور شعیب بھائی کا شکریہ ادا کیجئے کہ جنہوں نے لاہور کے عین قلب میں موجود ایک تاریخی دفینے کو طشت از بام کیا، زبان زد خاص و عام کیا۔
کڑی دا باغ (شعیب بن عزیز )
یہ کہانی پاکستان کے شہر لاہور کے وسط میں موجود دو قبروں کی کہانی ہے۔ یہ لاہور شہر کا معروف علاقہ پرانی انارکلی ہے۔ گنجان عمارتوں اور پیچیدہ راستوں میں گھری ہوئی ان قبروں میں یورپی طرز تعمیر کےقدیم گیندوں اور محرابوں تلے محو خواب یہ دو افرادکون ہیں ؟ اس حقیقت سے عام شہری تو ایک طرف اس علاقے کے اکثر باسی بھی بے خبر ہیں۔ یہ قبریں محبت، شجاعت اور دو تہذیبوں کے سنگم کی ایک ان کہی داستان سناتی ہیں۔ اس داستان کا دامن یورپ کے ملک فرانس سے لیکر متحدہ ہندوستان کےخطہ پنجاب تک پھیلا ہوا ہے۔ان میں سے ایک قبر فرانس سے تعلق رکھنے والے عظیم جنگجو Jeans Francios Allred اور دوسری اسکی کمسن بیٹی Marie Charlotte کی ہے۔ فرانس کے شہر St Tropesمیں پیدا ہونا والا Allard فطرت سے ایک مہم جو طبعیت لے کر پیدا ہوا تھا۔ اسنے نپولین کی فوج میں شامل ہو کر کئی معرکوں میں اپنی شجاعت کا لوہا منوایا۔ وہ واٹر لو کے معرکے میں نپولین کی شکست تک اسکے ساتھ رہا۔ جواں سال الرڈ کو اسکی مہم جو طبعیت نے فرانس کو خیر آباد کہنے پر مجبور کر دیا۔ مصر ، ایران اور افغانستان میں قسمت آزمائی کے بعد وہ ۱۸۲۵ میں متحدہ ہندوستان کے صوبے پنجاب میں پہنچا جہاں اسوقت مہاراجہ رنجیت سنکھ کی حکومت تھی۔ یہاں اسے اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آئی اور پھر وہ زندگی بھر کے لئے یہیں کا ہو رہا۔ الرڈ نے اپنی خداداد صلا غیروں اور غیر معمولی بہادری سے مہاراج کا دل جیت لیا چنانچہ مہاراجہ کی فوج میں اسے جنرل کے عہدے پر ترقی دے دیگئی۔ اس نے نہ صرف اپنے نئے مربّی کی افواج کی تنظیم نو کا عظیم کام سر انجام دیا بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور دلنواز عادتوں کے ذریعے رنجیت سنگھ کے سپاہیوں میں شجاعت اور جانثاری کا نیا ولولہ پھونک دیا۔ ۱۸۲۰ کے عشرے کا یہی وہ زمانہ تھا جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی افواج نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ مہاراجہ نے ۱۸۳۷ میں الرڈ کو پشاور کا پہلا ملٹری گورنر مقرر کر دیا۔ جنرل الرڈ کے لئے مہاراجہ کی پسندیدگی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مہاراجہ نے اسکے لئے دلہن کا انتخاب بھی خود کیا۔ الرڈ کی دلہن کوئی عام ہندوستانی عورت نہ تھی۔ وہ چمبہ کے راجہ منگا رام سنگھ کی بیٹی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ فوجوں کی غارت گری اور کشت وخون کے درمیان شب و روز گزارنے والے جنرل الرڈ کو یہ فکر ستانے لگی کہ اسکی ناگہانی موت کی صورت میں میں اسکی بیوی پر کیا گزرے گی± ؟ کیا اسے بھی وقت کے رواج کے مطابق ستّی ہونا پڑے گا۔ انہی سوچوں میں گھرے ہوئے جنرل نے اپنی بیوی رانی Bannu Pan Dei اور بچوں کو فرانس میں اپنے خاندان کے پاس بھجوا دیا۔ ہماری آج کی داستان کی دو قبروں میں سے ایک قبر جنرل الرڈ کی ایک بیٹی کی ہے جو لاہور میں قیام کے دوران اسی رانی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کی تدفین کے لئے اپنی رہائش کے قریب ایک وسیع قطعہ اراضی کا انتخاب کیا اور اس ایک شاندار باغ کی شکل دے دے دی۔ زندگی کے مختلف معرکوں میں شدید زخم اٹھانے کے باوجود زندہ بچ جانے والا جنرل بالآخر عارضہ قلب کے ہاتھوں ۱۸۳۹ کو پشاور میں حرکت قلب بند ہونے سے جان کی بازی ہار گیا۔ الرڈ کو اسکی وصیت کے مطابق اسی باغ میں دفن کیا گیا جو اس نے اپنی چہیتی بیٹی کے لئے بنایا تھا۔ یہ باغ اسوقت تک اہل شہر میں کڑی دا باغ کے نام سے مشہور ہو چکا تھا۔ رنجیت سنگھ نے اپنے محبوب جنرل کی قبر پر اسکے شان شایان مقبرہ تعمیر کیا اور باغ کی تزئین و آرائش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ۱۹۸۸میں ممتاز محقق اور تاریخ دان بانی سنگھ کے ایما ہر حکومت پاکستان اور فرانسسی ایمبیسی کے تعاون سے اس مقبرے کی تعمیرنو کی گئی۔ پنجاب کی عسکری تاریخ کے ایک یادگار کردار کا بنایا ہوا یباغ تو اب گنجان عمارتوں کی زد میں آکر مدت سے قصہ ماضی ہوچکا مگر لاہور کے معمر باسی اب بھی اس مقام کو کڑی دا باغ کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
Ashraf al Azeem New York