پاکستان کے معاشی حالات
عوام کےلئے دھڑام سے گرنے سے قبل ہی معاشی حالت ایک ڈراو¿نا خواب بن چکی ہے، معیشت میں انقلابی تبدیلی کے طور پر سی پیک کا معاہدہ کیا گیا تھاجو کہ”تبدیلی “کی بھینٹ چڑھ گیا
خصوصی مضمون : محمد مہدی (لاہور)
پرویز مشرف کا اقتدار زوال پا چکا تھا اور ثابت ہو چکا تھا کہ یہ صرف ایک متھ(myth) ہی ہے کہ زوال نہیں آتا بلکہ آتا ہے اور بہت بری طرح آتا ہے۔ ان کی معاشی پالیسیوں پر زبردست تنقید کی جا رہی تھی، انہی ایام میں ان کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ شوکت عزیز کو آکر اپنی معاشی پالیسیوں کا دفاع کرنا چاہیے اور لوگوں کی ہنسی چھوٹ گئی کہ کون شوکت عزیز ؟ اقتدار کا اصل چہرہ شوکت عزیز یا ان کی جماعت نہیں تھی بلکہ جنرل مشرف کی ذات تھی کیونکہ شوکت عزیز کو اس منصب تک کھینچ کھا نچ کے وہ ہی لے کر آئے تھے۔
آج بھی معاشی میدان میں جو کسمپرسی کی کیفیت قائم ہوچکی ہے اس کے ذمہ دار بھی آج کے ” شوکت عزیز ” کو گردانا نہیں جائے گا بلکہ ان کو اقتدار میں لانے والے ہی سمجھے جائینگے۔ کامیابی ناکامی کا دارومدار معاشی کارکردگی پر ہوتا ہے اور معاشی کارکردگی اس وقت کیا ہے اس کو سمجھنے کی غرض سے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی تقریر سن لیں۔ ان کی تقریر سے ایک بات تو کم از کم حتمی طور پر قائم ہو جاتی ہے کہ معاشی کارکردگی قابل تعریف ہونا تو درکنار اس وقت شدید تشویش ناک حالت میں موجود ہے اور اگر یہ تشویشناک حالت بدستور اسی طرح سے قائم رہی تو ایسی صورت میں ماسوائے معیشت کے دھڑام سے گرنے کے علاوہ اور کوئی خبر اس میدان میں سننے کو نہیں مل سکتی ہے۔
عوام کے لیے دھڑام سے گرنے سے قبل ہی معاشی حالت ایک ڈراو¿نا خواب بن چکی ہے۔ ملکی معیشت میں ایک انقلابی تبدیلی کے طور پر سی پیک کا معاہدہ کیا گیا تھا مگر وہ انقلابی تبدیلی ، تبدیلی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ سی پیک کو زبانی کلامی جتنا مرضی کہا جائے کہ ہم چلا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے راستے میں کنکر ہی کنکر بکھیر دیے گئے ہیں۔ سی پیک کا سب سے بڑا منصوبہ ریلوے کا ایم ایل ون ہے مگر اس سب سے بڑے منصوبے کے حوالے سے صرف ایک ہی خبر ہے کہ 2021 کا سورج ڈھلنے والا ہے مگر ایم ایل ون منصوبہ صرف فائلوں تک محدود ہے اور فائل بھی صرف وہ جو بند پڑی ہے۔
سی پیک کے دیگر منصوبوں کا بھی یہی حال ہے کہ خود تسلیم کرلیا ہے کہ انڈسٹری کے حوالے سے کام شروع نہیں ہوا اگلے فیز کا انتظار کیجئے۔ جب پہلا فیز ہی التواءکا شکار ہو گیا ہے تو اگلا فیز تو نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی کہ مصداق آئے گا ہی نہیں۔ ایم ایل ون پراس سے قبل بھی تحریر کیا تھا کہ کام رکا ہوا ہے تو جواب میں لمبا چوڑا کالم تحریر کردیا گیا کہ ہم بہت کام کر رہے ہیں۔ کام یہ کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ جہاں تھا وہیں پر پڑا ہوا ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حالات اس نہج تک کیسے پہنچ گئے کہ ماسوائے حکومتی ترجمانوں کے اور کوئی مطمئن محسوس ہی نہیں ہوتا ہے۔ اس کا واضح جواب ہے کہ حکومت صرف نفرت کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اور اب بھی نفرت اور الزامات در الزامات کی بنیاد پر قائم رہنا بلکہ اگلے انتخابات کا رخ کرنا چاہتی ہے۔ ان کے پاس تو حقیقی صورت حال کو سمجھنے کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے ملک میں ہاہا کار مچا ہوا ہے کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اس کے جواب میں بیان آتا ہے کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ اور اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے اور نیند میں جانے سے قبل ہی دوبارہ سے سنایا جاتا ہے کہ ملک میں مہنگائی موجود نہیں ہے۔ معاملہ صرف مہنگائی کے چکر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سابق دور حکومت میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سی پیک کے تحت بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے منصوبے لگائے گئے بجلی دستیاب ہو گئی۔ اس کا انکار تو ممکن نہیں تھا مگر الزام عائد کرنا بھی ضروری تھا۔
لہٰذا یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ بجلی پاکستان کی ضرورت سے زیادہ پیدا کر دی گئی ہے اور بجلی کی زیادتی مسئلہ بن گئی ہے۔ یہ الزام وفاقی کابینہ کے رکن کی سطح سے لگایا گیا اور اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی گئی کہ اس سے برادر ممالک سے تعلقات بھی سٹیک پر تھے۔ مگر اب اسی سطح کے وفاقی کابینہ کے رکن نے کہا ہے کہ بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ نہیں کی گئی بلکہ پاور سیکٹر کی ضرورت تھی اس کو مدنظر رکھ کر عالمی طریقہ کار کے مطابق بجلی کی پیداوار کی گئی۔ توانائی کے بحران میں گھرے ملک کی توانائی کے شعبوں کے حکومتی سربراہوں کے بیانات میں تضاد صرف ایک بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ ان تمام مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے غرض سے کبھی حزب اختلاف پر چڑھائی کر دی جاتی ہے اور کبھی کوئی عالمی منظر نامے کا معاملہ ایسے سامنے لایا جاتا ہے جیسے بڑی کامیابی حاصل کرلی گئی ہو جیسے مسلمان ممالک کے وزرائے خارجہ کی تازہ کانفرنس اس کی ایک مثال ہے۔
گذشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ یہ ایک عرب ملک کی حکمت عملی کے طور پر منعقد کی گئی ہے ۔ہماری کامیابی تب ہوتی کہ جب یہ کشمیر کے موضوع پر ہوتی ہے مگر اس حوالے سے تو سانپ سونگھ گیا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ موجودہ کارکردگی کا حقیقی ذمہ دار وہ ہی گردانا جائے گا کہ جو اس کا حقیقی فیصلہ ساز ہے۔ شوکت عزیز تو بعد میں قابل بحث بھی نہیں رہتا۔