پاکستان میں ڈکٹیٹرجنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے، کچھ لوگوں نے سرکاری املاق کو اور اپنے آپ کو نقصان پہنچا نے کی کوشش کی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن، پاکستان کی دو بار منتخب وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید، جو کہ اس وقت دبئی میں تھیں ،انہوں نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے، اسی وقت ایک بیان دیا اور کارکنان کو ہدایات جاری کیں کہ وہ کوئی املاق اور خاص طور پر اپنی جان کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان کے جان و مال کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچے۔
اس طرح مرد حر آصف علی زرداری صاحب جیل میں تھے، ان کے خلاف پی پی پی اور اس کی لیڈرشپ مخالفین نے بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات بنا رکھے تھے، ان تمام مقدمات میں سے جناب آصف علی زرداری صاحب پر استغاثہ ایک مقدمہ بھی ثابت نہ کر سکی۔
ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی غیر قانونی، غیر جمہوری حکومت تھی
میں نے جنرل پرویز مشرف کو ایک خط لکھا اور اس کو کہا کے سابقہ وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ اور آصف علی زرداری پر بنائے گے جتنے بھی جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات ہیں، انہیں ختم کریں، خود دبئی جا کر محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان واپس لے کر آئیں اور اگر انہیں اقتدار میں انے کا شوق ہے تو اپنی وردی اتاریں اور ملک میں فری اینڈ فیئر انتخابات کروائیں اور اس کے نتایج کے مطابق ملک کےاقتدار کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ اس کے علاوہ میں نے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو سیاستدان اور ایک فوجی کے کام کے بارے میں بھی لکھا۔ بتایا کہ فرق صاف ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کچھ ضروری باتیں تھیں جو اس خط میں میں نے لکھی تھیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو اس خط کے بارے میں علم تھا۔ وقت اور حالات نے میری باتوں کو سچ کر دکھایا۔ مردحر آصف علی صاحب جیل میں تھے ،زرداری صاحب کو جیل میں رکھ کر بچوں اور فیملی سے دور رکھ کر محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو توڑنے کی کی کوشش کی جا رہی تھی۔مجھے یہ جو سب کچھ ہو رہا تھا میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔
میں نے یہاں نیو یارک میں جناب آصف علی زرداری صاحب کو بے جا قید میں رکھنے ان پر اور محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ پر جو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات بنانے گے تھے کے خلاف احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا،
ان پر سے تمام جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات ختم کرنے اور جناب آصف علی زرداری کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کر دی۔ بھوک ہڑتال کی نیو یارک سٹی سے اجازت لی اور پاکستان قونصلیٹ کے باہر 65 سٹریٹ اور 5 ایونیو پر میں اور میرا بیٹا بیٹھ گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو میں لکھ دیا تھا کہ میں ایسا کرنے جا رہا ہوں۔ہمارے بیٹھنے کے بعد چودھری سرور صاحب کے مشورے سے نیاز جوئیہ بھی شامل ہو گے۔ اس کے بعد ایک اور دوست ارشاد خان بھی شامل ہو گے۔ پی پی پی یو ایس اے کی طرف سے پہلی بار کسی نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔بھوک ہڑتال تین دن تک جاری رہی۔ ہم بارش کے سخت طوفان میں بھی بیٹھے رہے۔
تین دن کی بھوک ہڑتال کے بعد میں نے محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو رپورٹ پیش کی۔ انہیں لکھا کہ میں اس بھوک ہڑتال کو ہر ہفتے یا دو ہفتے کے بعد جناب آصف علی زرداری صاحب کی رہائی تک جاری رکھنا چاہتا ہوں۔محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کا میسج آیا کہ بھوک ہڑتال کو چھوڑو۔ پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے بارے میں وہاں کے امریکن سینٹرز اورارکان کانگرس کو ملواور خط بھی لکھو۔
اب ذرا احساس کی طرف چلتے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ وہ تو کبھی بھی نہیں چاھتی تھیں کہ کوئی بھی کارکن کسی تکلیف میں ہو ۔شاید اسی لئے انہوں نے بھوک ہڑتال سے روک دیا ہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ میرا بیٹا “ڈاو¿ن سنڈرم” ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ اس بات کو جانتی بھی تھیں۔ وہ میرے بیٹے شیراز فرخ کے کمرے کا معائنہ بھی کر چکی تھیں۔ وہ نہایت ہی رحمدل، ہمدرد اور احساس طبیعت کی مالک تھیں۔
صرف کارکنان کا ہی نہیں پورے پاکستان کے غریب عوام کی خیرخواہ تھیں اور ان کی ہر تکلیف کا احساس کرتی تھیں۔
“بینظیر، بینظیر تھی”
(نوٹ : مضمون نویس چودھری اعجاز فرخ، پاکستان پیپلز پارٹی یو ایس اے کے سابق سینئر نائب صدر، سیکرٹری انفارمیشن ہیں)