یہ جو این وائی پی ڈی کا بیج ھے یہ عبدل صاحب کا ھے اور تصویر میں ھیں ھمارے پیارے دوست معین بٹ صاحب گوالمنڈی لاھور والے- ھمارے طالب علمی کے زمانے میں مسلم یوتھ فورس لاھور کے نائب صدر ھوا کرتے تھے۔ یہ جو تصویر آپ ملاحظہ کر رھے ھیں، اس تصویر میں جناب معین بٹ صاحب تہجد کے اوقات میں داتا دربار کے باھر زردے اور بریانی کی دیگیں بھگتا رھے ھیں۔ گلے میں گلاب کا ھار جو مزار کے ایک خادم نے فاتحہ پڑھتے ھوئے بٹ صاحب کے گلے میں ڈال دیا تھا اور گردن میں کووئڈ سے بچاؤ کا حفاظتی ماسک۔ یہاں نیویارک میں کوئڈ کے دوران دل میں سٹنٹ ڈلواتے پھر رھے تھے مگر اصل سکون قلب کیلئے کووئڈ شووئڈ چھوڑ چھاڑ سیدھے لاھور پہنچ گئے۔ بٹ صاحب جب بظاھر یہاں نیویارک میں موجود ھوں تب بھی دل تو ھمہ وقت، داتا دربار، پیر مکی، میاں میر، مزار بی بی پاک دامناں اور گوالمنڈی،نسبت روڈ اور شاہ عبدالمالی کی گلیوں میں ھی لگا رھتا ھے۔ پاکستان میں تیس میل کی میراتھن کے چئمپئن تھے ، ریلوے، پولیس اور آرمی والے پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے سے کھینچا تانی کر کے اپنی اپنی ٹیموں میں بھرتی کرنے کے جتن کرتے رھتے۔ تین دھائیاں قبل گوالمنڈی کی گلیوں سے نکلے اور نیو یارک پہنچ کر دم لیا۔کچھ عرصہ پہلے جب میں نے نیو یارک کی سڑکوں کو ماپنا شروع کیا تو ھمارا ٹکراؤ ھوا اور پھرھم دونوں پر لاھوری اور کشمیری عصبیت چھا گئی۔ اپنے وقت میں پاکستان بھر میں ٹریک اینڈ فیلڈ کے چیمپئن کھلاڑی رھے ھیں اور وھی ھنر یہاں اپنے بچوں میں منتقل کرنے میں کامیاب ھوئے اور ماشااللّہ سب بچوں نے یہاں ڈھیروں ڈھیر ایوارڈز ، ٹرافیز اور دیگر انعامات اکٹھے کر رکھے ھیں۔ ھائی سکول میں بچوں نے ناسا کاؤنٹی پولیس ڈپارٹمنٹ میں والنٹئیر کرناُشروع کیا، اور پولیس ڈپارٹمنٹ میں یہ کشمیری نسل کے پاکستانی امریکن بچے ایسے مقبول ھوئے کہ کووئڈ کے دنوں میں جب سب لوگ گھروں میں مقید تھے تو بیٹی جو کہ پولیس والنٹئیر بھی ھے اور پولیس ڈپارٹمنٹ کے لئے شمشیر زنی کے کھیل کی چیمپئن شپ جیت چکی ھے، اس کی سالگرہ والے دن پولیس کاروں کا پورا سکواڈ ھارن بجاتا گلدستے اورکیک لے کر ان کے گھر کے آگے سلامی پیش کرتا رھا۔ھائی سکول کے بعد بڑے والے برخوردار نے جان جے کالج آف کریمنل جسٹس میں داخلہ لے لیا اور خیر سے اب ڈگری لے کر جیسے فارغ التحصیل ھوئے تو پولیس ڈپارٹمنٹ نے اچک لیا اور ابھی کچھ دن پہلے اس نوجوان کو جب باقاعدہ طور پر این وائی ہی ڈی کا بیج لگایا گیا تو بٹ صاحب نے داتا دربار جا کر دیگیں تقسیم کرنا شروع کیں اور ساتھ میں یہاں نیو یارک کے دوستوں کو بھی بیٹے کی سلیکشن سے مطلع کیا۔آج آپ دیکھئے کہ لیفٹیننٹ صاحب کے ابا جان داتا دربار پر حاضری دے رھے ھیں، زائرین میں دیگیں تقسیم کر رھے ھیں، کچھ سالوں بعد آپ دیکھیں گے کہ جب نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ کا چیف کا بیج لگائے ایک پولیس افسر اپنے بڑوں کی روایت نبھانے داتا دربار پر جا کر شکرانے کے نفل پڑھ رھا ھو گا، پھر دربار کے متولی اسے گلاب کے ھاروں سے لاد دیں گے ،تصویریں بنوانے کی دوڑ لگے گی اور وہ جیسے ھی باھر آ کر دیگوں پر کھڑا ھو گا تو دکان دار “لنگرکھان والے، لنگر والے آ جاؤ وائی” کی آوازیں لگا کر عقیدت مندوں کو بلائیں گے اور دیگوں کے آگے لگتی قطار دیکھ کر چیف صاحب ڈبڈباتی آنکھوں سے دائیں بائیں دیکھیں گے کہ کس نے ان کا کندھا تھپتھپایا بالکل ان کے پاپا کے انداز میں۔ اور پھر دل ھی دل میں خود کلامی کے اندازمیں کہیں گے
“Hey dad, I know you will always be there in this mystical surrounding, don’t worry I will keep coming every year, I will always stay connected to my heritage”